Friday, July 14, 2023

سندھی میڈیا مزاحمت، چلینجز اور آپشنز۔۔۔۔

 سندھی میڈیا مزاحمت، چلینجز اور آپشنز۔۔۔۔

 اردو یونیورسٹی کراچی کے زیر اہتمام اپریل 2014 میں منعقدہ کانفرنس میں یہ مقالہ پڑھا گیا
سہیل سانگی

 ان دنوں سندھ کے کئی شہروں میں الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی چینلز ) کی نشریات بند ہے ۔  اس کی وجہ وہ رویہ ہے جو آج سے تقریبا تین دہائی پہلے مین اسٹریم میڈیا نے سندھ کے لوگوں اور سندھ کے اشوز کے ساتھ روا رکھا تھا۔ حالیہ  
بائیکاٹ کی وجہ جیئے سندھ قومی محاذ نامی قوم پرست جماعت کا فریڈم مارچ بنا جو تئیس مارچ کو ملک کے میڈیا سٹی کراچی میں نکالا گیا، جو اس مین اسٹریم میڈیا میں جگہ حاصل نہیں کرسکا ۔

یہ قوم پرست کارکن  پوری دنیا اور پاکستان کی ریاست کی توجہ سندھ کی محرومیوں اور مسائل کی منبذول کرانا چاہتے تھے، لیکن بعض دباؤ اور نامعلوم اسباب کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ سندھ کے ایک بڑے حلقے نے مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے کو ” غیر ذمہ دارانہ“ اور تعصب پرستانہ قرار دیا، جس میں سماجی ویب سائیٹوں پر تبصروں نے بھی اہم کردار ادا کیا اور اس طرح ان چینلز کا غیر اعلانیہ بائکاٹ کردیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں جب محرومیوں کا لاوا پک رہا تھا اس وقت بھی مین اسٹریم میڈیا کا کچھ ایسا ہی کردار نظر آیا تھا، لائبریروں میں موجود اخبارات کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ وہاں کوئی تحریک جاری تھی یا لوگ اس قدر بیزار ہوچکے تھے کہ انہیں الگ وطن کا نعرہ لگانا پڑا، اس رویے کی دوسری مثال آج بلوچستان میں نظر آتی ہے جس کے ساتھ بھی یہ رویہ روا رکھا گیا ہے، لیکن جب بات سندھ کی آتی ہے تو صورتحال قدرے مختلف ہوجاتی ہے کیونکہ یہاں سندھی زبان تحریری شکل  میں موجود ہے اور اس کا متحرک میڈیا تینوں صنفوں آڈیو ، ویڈیو اور ٹیکسٹ کی صورت میں رائج ہے۔سوشل میڈیا پر ایکٹوازم کے علاوہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ میں آج بھی الیکٹرانک میڈیا تفریح جبکہ پرنٹ میڈیا معلومات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے مطابق موجودہ وقت 23 سندھی اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ پاکستان پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل142 باقاعدہ اخبارات ہیں۔ یعنی کل اخبارات کا 16فیصد سندھی اخبارات ہیں، اس طرح سندھ کی دیہی اور شہری آبادی ملاکر پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا چوبیس فیصد بنتی ہے۔

اگرچہ سندھ میں اردو، سندھی اور انگریزی اہم زبانیں ہیں جن میں اخبارات نکلتے ہیں۔اردو میڈیا  کنزرویٹو، مرکزیت پسند، قصے کہانیوں والی، رجعت پسند اور سنسی پھیلانے والی ، جبکہ انگریزی ایلیٹ طبقے کی میڈیا تصور کی جاتی ہے جو زیادہ لبرل اور پروفیشنل ہے۔

ڈسٹورشن
 سندھ کے سیاسی شعور کا اظہار تو ون یونٹ میں سامنے آچکا تھا، لیکن صحافت اس کا مظہر نہیں بن سکی، ون یونٹ کے قیام کے وقت سندھی اخبارات نے احتجاجی اداریے لکھے لیکن بعد میں مارشل لا کی سخت پابندیوں کے باعث موثرکردار ادا نہیں کرسکی۔ اس کی جگہ ادب اور ادیبوں نے لی۔ ادبی جرائد یا پھر خفیہ پمفلیٹوں کے ذریعے اظہار اور احتجاج کیا جاتا رہا۔
  
 پچاس کی دہائی کے آخر میں مسلم لیگ کے رہنما قاضی محمد اکبر نے نامور ادیب محمد عثمان ڈیپلائی سے روزنامہ عبرت خریدا تو سیاسی مقاصد کے لیے تھا، لیکن ان کی سربراہی میں عبرت وہ پہلا سندھی اخبار تھا جو کمرشل بنیادوں پر استوار کیا گیا۔

ساٹھ کی دہائی کے آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روزنامہ ہلال پاکستان خریدا لیا اور اس کو بطور پارٹی آرگن شایع کیا ۔انتخابات میں کامیابی کے بعد اخبار کو حیدرآباد سے کراچی منتقل کیا گیا اور اس کی ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ممتاز سندھی دانشور سراج الحق میمن کو ایڈیٹر تعینات کیا گیا۔

مذہبی ریڈیکل اظہار ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جماعت اسلامی کے بعض اخبارات کے ذریعہ ہوا۔ جماعت اسلامی اپنے ماہوار میگزین تو نکالتی رہی لیکن اس فکر کے اخبار کی سندھ میں گنجائش نہیں تھی۔ البتہ مہران اخبار جو کہ پیر پاگارا کی زیرسرپرستی شایع ہوتا تھا، اس کے ایڈیٹر سردار علی شاہ کے انتقال کے بعد یہ اخبار بھی ایک حد تک لبرل ہوگیا۔

عبرت، آفتاب ، ہلال پاکستان قوم پرستانہ اور ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ چلتے رہے۔ ہلال پاکستان اپنی پالیسی اور فکر میں حکومت کا حامی ہونے کے باوجود ترقی پسندانہ سوچ کا حامی تھا۔ جو رنگ بعد میں ہلکا پڑتا گیا ۔

اسی کی دہائی میں بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی نے سندھ کے ہر گلی اور گاؤں میں ایک تحرک پیدا کیا، جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر گئیں لیکن اس تحریک کی کوریج مین اسٹریم میڈیا میں کراچی تک محدود رہی، جو سندھ میں سرگرمی اور فکر پیدا ہوا اس وقت کے سندھی اخبارات اس کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

سندھی میڈیا میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب سیاسی کارکن صحافت میں شامل ہوئے، یہ لوگ بائیں بازو کی تحریکوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا فکری اور سیاسی رجحان اور جدوجہد اسٹبلشمنٹ یا بالائی طبقوں کے خلاف رہی تھی۔ یوں ایک نئی سندھی صحافت نے جنم لیا۔  لہٰذا سندھ کے ترقی پسند کارکنوں نے عوامی آواز کا اجراءکیا۔

میرے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ میں اس مزاحمتی صحافت کا بانی بنا۔ جبکہ فقیر محمد لاشاری مرحوم، انور پیرزادو، بدر ابڑو، عبدالرحمان نقاش نے بھی مزاحمتی صحافت میں اپنا رول ادا کیا۔ یہ اور بات ہے کہ بعض سرکاری ادارے اور ان کے حاشیہ بردار اس مزاحمتی صحافت اور صحافیوں کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 اس مزاحمتی صحافت کے نقش قدم پر بعد میں جاگو (ایڈیٹر فقیر محمد لاشاری)، پکار (ایڈیٹر بدر ابڑو)، کاوش (ایڈیٹر علی قاضی) ، برسات (ایڈیٹر شیخ ایاز اور یوسف شاہین)بھی جاری ہوئے۔ عوامی آواز کی انتظامیہ نے موقعہ پرستی اور مالی لالچ کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے  وہ اپنی پوزیشن کھو بیٹھی۔ جبکہ کاوش نے اس آئیڈیا کو پالش کیا اور فنشنگ کی تو سندھی کا سب سے بڑا اخبار بن گیا۔

قومی مالیاتی ایواڈ اور پانی کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر مین اسٹریم میڈیا کے لیے قومی اشوز تھے جبکہ سندھی میڈیا نے ایک لکیر کہینچ کر خود کو الگ کیا، نوے کی دہائی سے لیکر دو ہزار تک یہ اشوز اس قدر میچوئر ہوچکے تھے جو سندھ کے لوگ مرنے مارنے کے لیے تیار ہوچکے تھے، یہ آگاہی اور سیاسی شعور انہیں سندھی میڈیا نے دیا۔

نوے کی دہائی میں اسٹبلشمنٹ کی سوچ کو سندھی معاشرے میں پھیلانے کے لیے الوحید اخبار نکالا گیا۔ جس کے لیے سندھ میں یہ بات عام تھی کہ یہ ایجنسیوں کا اخبار ہے، لیکن تمام تر مالی وسائل اور اطلاعاتی مراکز تک رسائی کے باوجود یہ اخبار بھی نہیں چل سکا۔ اسی طرح بعض غیر سندھی اداروں نے بھی سندھی میں اخبارات نکالنے کے تجربے کیے، جن میں سے تقریبا تمام ہی کو مالی نقصان اٹھانا پڑا، اس کی وجہ مالکان اور قاری کے مزاج اور سوچ میں ایک واضح فرق تھا۔

پنجاب کے ایک بڑے میڈیا گروپ نے کالاباغ ڈیم کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے سندھی میں اخبار کا اجرا کیا، لیکن اس کو وہ پذیرائی نہیں ملی اور جب جنرل مشرف نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے اشتہاری مہم چلائی تو اس سندھی اخبار کے نوجوان مستعفی ہوگئے۔

سندھی صحافت نے سماج کے کئی پہلوں کو اجاگر کیا، انیس سو نوے کی دہائی کے بعد غیرت کے نام پر قتل، جبری مشقت، جرگوں میں فیصلوں اور پسند کے شادی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے، اس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آنے لگیں، جس نے ریاست کو اس طرف بھی متوجہ کیا، روایتی سرداری اور جاگیرداری نظام کو ہلانے اور مزاحمت کی قیمت خون سے بھی ادا کی گئی، کندھ کوٹ سے لیکر میرپورخاص تک آٹھ سے زائد صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

 حالات اور واقعات کچھ ایسے ہوئے کہ سندھی صحافت کا کردار معلوماتی کے ساتھ مزاحمتی بھی بن گیا، اس طرح اس نے سیاسی جماعتوں کا کردار اپنے سر لے لیا، جو بعض جماعتوں کو پسند نہیں آیا، بعد میں بعض سیاسی جماعتوں نے اخبارات میں اپنے کارکن بھرتی کرانے کی کوشش کی، لیکن انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ بعض قومپرست جماعتوں نے تشدد کا راستہ بھی اپنایا اور یوں اخبارات کے بنڈل جلانا کا عمل شروع ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھی میڈیا کے تعلقات کبھی کھٹے میٹھے تو کبھی تلخ رہتے ہیں، پیپلز پارٹی اپوزیشن میں سندھی صحافت  کو اپنا محبوب پریس اور اقتدار میں ولن سمجھتی ہے۔ حالیہ دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سندھ کے وزیر اطلاعات کبھی بھی سندھی چینل پر نہیں آتے۔

ہر وفاقی حکومت کا بھی سندھی میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو ہوں یا، یوسف رضا گیلانی یا میاں نواز شریف، ایوان صدر میں جنرل مشرف ہوں، آصف علی زرداری یا ممنون حسین سندھی پریس سے الگ ملاقات کرتے ہیں، لیکن ان کی عملی اہمیت کے انکاری ہوتے ہیں۔

چیلینجز

سنہ 2000 کے بعد سندھی صحافت میں آنے والے نوجوان سیاسی تربیت اور ادبی پس منظر سے خالی ہیں، وہ سندھی صحافت جس نے دو دہائی قبل اسٹیٹسکو کو چئلینج کر کے ایک نئی شناخت بنائی تھی اب انحطاط کا شکار ہے۔ جس صحافی نے مقامی سردار، وڈیرے، سیاستداں اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کو چیلینج کیا تھا، اب اس کے حاشیہ بردار نظر آتے ہیں۔

صحافت کی باضابطہ تعلیم کے اداروں سے بھی جو لوگ اس شعبے میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ان کے لیے صحافت ایک گلیمر کی دنیا ہے جس میں وہ کسی سیاسی یا سماجی تبدیلی کے بجائے خود نمائی اور خود پسندی کی سوچ رکھتے ہیں۔
میڈیا کے اداروں کی شکایت اپنی جگہ پر ہے کہ تعلیمی اداروں سے صحافت کی تعلیم حاصل کرکے آنے والے اکثر نوجوان ان کے کسی کام کے نہیں ۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ اکثر سندھی اخبارات کے مدیر  ورکنگ جرنلسٹ نہیں ہیں۔

 وہ سوچ اور فکر جو پہلے بائیں بازو کے زیر اثر یا وابستہ تھی اب وہ دباؤ، خوف ، لالچ یا پھر ترقی پسندانہ فکر کے پیروکار نوجوانوں کی میدان میں عدم موجودگی کے باعث سینٹرل رائیٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس کی مثال پچھلے دنوں لاڑکانہ میں دھرم شالا کو نذر آتش کرنے، نیو دمبالو میں تین ہندو نوجوانوں کی گرفتاری اور حیدرآباد میں کالی مندر کے واقعات ہیں، جس کی کوریج غیر واضح اور مسخ کردی گئی ۔ یہ رویہ سندھی پریس کا پہلے کبھی بھی نہ تھا۔ ان واقعات پر سندھی میڈیا کے عمل کو ایک قدم آگے بڑھنے کے بجائے دو قدم پیچھے جانے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

اردو میڈیم میڈیا سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے سندھ کے اشوز کو رپورٹ کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی مفاد۔ یہی وجہ ہے کہ انگلیوں پر گننے کے برابر سندھی لوگ اس میڈیا میں لیے گئے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں سندھی کالم نویس۔ قابل حیرت اور افسوس امر یہ بھی ہے کہ نیوز چینلز پر کسی بھی ٹاک شو کا کوئی سندھی میزبان نہیں۔

اس صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات اور سوچ کے تبادلہ کے بجائے ایک ایسے مرکزیت پسندی کے تنگ نظر چشمے سے دیکھتی ہے جس کو نام تو قومی مفاد کا نام دیا جارہا ہے لیکن عملا اس کے برعکس ہے۔ یوں مین اسٹریم میڈیا لوگوں کو جوڑنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔

اطلاعات کا خلاء
پاکستان میں مجموعی طور پر میڈیا کی معلومات تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے، اگر کوئی معلومات ملتی بھی ہے تو وہ یک طرفہ ہوتی ہے یا پھر manipulated۔ اس ضمن میں سندھی میڈیا کے ساتھ ایک اور المیہ  بھی ہے۔ وہ ہے معلومات اور ان کے ذرائع اور اداروں تک رسائی۔
سندھ اقتدار کے تکوں میں اکثر غیر موجود ہوتا ہے،  یہی صورتحال مختلف اداروں کی بھی ہے، لہٰذا ان اداروں تک سندھی میڈیا کی رسائی خاصی مشکل رہتی ہے۔ یہ انیس نوے کے عشرے کی بات ہے کہ سندھی اخبارات نےاسلام آباد میں اپنے بیورو آفیسز قائم کئے۔ روزنامہ کاوش واحد اخبار ہے جس کے نمائندے ملک کے باقی تین دارالحکومتوں میں بھی ہیں۔

مالی حالت
سندھی اخبارات کا انحصار سرکاری اشتہارات پر زیادہ ہے، یہ بات حکومت وقت بخوبی جانتی ہے، اس لیے اشتہارات کے اجرا سے لیکر ادائیگی تک کبھی بلواسطہ تو کبھی بلا واسطہ دباؤ ڈال کر اپنی تشہیر حاصل کرتی رہی ہے، ایسا بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ کئی اخبارات کو سبق سکھانے کے لیے ان کے اشتہارات بند کیئے گئے۔

کراچی، نوری آباد، حیدرآباد اور کوٹڑی میں کئی صنعتیں اور چھوٹے بڑے کارخانے موجود ہیں لیکن سندھی میڈیا ان سے بہت کم ہی اشتہار حاصل کرتے ہیں، اسی وجہ سے کچھ اخبارات تو یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا سندھی بچے چاکلیٹ، ٹافی، یا آئسکریم نہیں کھاتے، کیا سندھی صابن، شیمپو، سگریٹ استعمال نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ ان کی دلیل ہوتی ہے کہ جب خریدار موجود ہے تو پھر اس میڈیم کو کیوں یہ اشتہار ملتا ہے جو وہ پڑہتے یا دیکھتے نہیں۔

صحافی اور میڈیا ورکرز

پریس قوانین خاص طور پر کارکنوں کی ملازمت، حالات کار، معاوضے وغیرہ کے حوالے سے سندھ پرنٹ میڈیا میں عمل درآمد خال خال ہے۔ کراچی کے برعکس ان کی آواز بھی اتنے موثر نہیں، اسلام آباد اور کراچی کی صحافتی تنظیمیں حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں کے صحافی مانتی ہی نہیں اور ان کی پیشورانہ صحافتی تنظیموں میں کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔
باقی تینوں صوبوں میں صحافتی تنظیموں کی صوبائی باڈیز ہیں لیکن سندھ واحد صوبہ ہے جہاں کراچی یونین آف جرنلسٹس ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ترقی پسندی کی دعویٰ کرنے والے دوست بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔



سهيل سانگي: سنڌي صحافت جو سدائين نوجوان ڪردار

 نيون پُراڻيون                                                                                                                                                                                    بدر ابڙو

سهيل سانگي: سنڌي صحافت جو سدائين نوجوان ڪردار

                آڪٽوبر 1950 ۾  ڳوٺ جنجهي ۾ جنم وٺندڙ سهيل سانگي اصل ۾ نه سهيل آهي ۽ نه سانگي. سندس اصل ٿري نالو سينئل يا سينهل آهي. ٿري لفظ آهي ”سنئيو ياسنهيو“ جنهن جي معنيٰ ته خبر نه آهي ته ڇا آهي، پر مائٽن جو اهو نالو رکيو ته ضرور ڪا سهڻي معنيٰ هوندي. خبر ناهي ته کيس پنهنجو اهو نالو ڇو نه وڻيو! شايد حيدرآباد جي شهري دوستن لاءِ اهو اجنبي نالو بنهه اوپرو هو، جن ان کي ”سُهيل“ سمجهيو. ائين سينهل به ان تي اعتراض نه ڪيو ۽ خاموشيءَ سان اها تبديلي قبول ڪري ويو. پوءِ ، هُو ”سهيل“ ٿي ويو. ”سانگي“ سندس قلمي نالو آهي پر لاڙڪاڻي جا ’سانگي‘ ابڙا  هن کي سانگي قوم جو سمجهندا آهن ۽ اهو سوچي خوش ٿيندا آهن  ته هي پڙهيل ڪڙهيل ماڻهو به اسان جي ڪُڙم قبيلي مان آهي. سهيل پنهنجو قلمي نالو ”سانگي“ ڇو رکيو؟ ڇا هو مير عبدالحسين ”سانگي“ کان متاثر هو؟ سهيل پاڻ ٻڌايو ته هو ميٽرڪ وارن ڏينهن ۾ شاعري ڪندو هو ۽ پنهنجو تخلص ”سانگي“ چونڊيو هئائين. هي لفظ خالص ٿري معنيٰ ۾ ”سانگيئڙا، جهانگيڙا، ماروئڙا“ آهي. سانگي معنيٰ اهي مارو لوڪ جيڪي مال چارڻ جي ”سانگي“ وس چرڻ ويندا آهن.  

                هو جيڪي آهي يا نه آهي، ”سهيل سانگي“ آهي ۽ منهنجو هڪ ذهين دوست آهي. جيئن انور پيرزادو منهنجو جبلن جو ساٿي هو، تيئن سهيل سانگي منهنجو جيل جو ساٿي آهي. سهيل جيل کائي آيو، مون کي ان جي خوشي ناهي پر هو جيل ۾ منهنجو سٺو ساٿي ٿي رهيو، جيل ۾ سندس موجودگيءَ مون لاءِ هڪ سٺو ادبي ماحول پيدا ڪيو، قلمڪار جو هو! ايئن ته ڪامريڊ جمال نقوي ۽ امرلال به منهنجا جيل جا سٺا ساٿي هئا پر ڪامريڊ جمال سان احترام جو رستو هو ۽ امرلال کي شاعري ۽ ادب بدران سياسي ڳالهيون ۽ ٻيا معاملا وڌيڪ پسند هئا.

                سهيل ۾ شاعري جا جيوڙا ان وقت داخل ٿيا جڏهن هو اٺين درجي کانپوءِ سال کن گهر ۾ ويٺو رهيو. تعليم جا وسيلا نه هجن ته ڪيڏي به خواهش جي باوجود ٻار نٿو پڙهي سگهي. هو پاڻ ۾ ٽي ڀائر هئا، وڏي مشڪل سان ڪو هڪ ٻار پڙهائيءَ لاءِ حيدرآباد تائين وڃي پئي سگهيو. ائين سينهل جنجهي پنهنجي ڳوٺ جنجهي (تعلقو ڇاڇرو) مان نڪري حيدرآباد پهتو.

                جيئن بيروزگاريءَ جو دور هوندو آهي، تيئن ڪڏهن ڪڏهن بي تعليميءَ جو دور به ايندو آهي. اهو ”بي تعليمي“ وارو هڪ سال سينهل لاءِ اهم هو. سندس ڳوٺ ۾ ڪتاب ايندا هئا، ڄام ساقي جيڪو سندس سئوٽ آهي، ڪميونسٽ پارٽيءَ ۾ سرگرم هو. ڳوٺ ۾ شاهه جو رسالو، شيخ اياز جي شاعري، روسي ناول ۽ ڪجهه سياسي فلسفي جو مواد ايندو هو. سهيل اهي خوب پڙهيا پر سوشلسٽ معاشيات جا ڪتاب ان وقت کيس ڇا سمجهه ۾ آيا هوندا؟ ايڪنامڪس هڪ ڏکي سائنس آهي، جيڪا فڪشن ۾ سمجهائجي ته جلد سمجهه ۾ اچي ويندي آهي.

                ڳوٺ جنجهي ۾ پهتل ڪتاب پڙهي ۽ ان ڳوٺ ۾ پڙهائيءَ جا بند رستا ڏسي، سندس ذهن ۾ اهي خيال ضرور اٿل پٿل ڪندا رهيا هوندا ته نيـٺ اسان جو ڀاڳ ائين ڇو آهي؟ تبديلي اچڻ گهرجي. سهيل ان ذهني آنڌ مانڌ سان  حيدرآباد جي ماحول ۾ گهڙيو. قدرتي طور سندس ويجهڙائپ ڄام ساقيءَ سان هئي. ايئن هو SNSF ۾ آيو. ڪتاب پڙهڻ ۽ شاعري ڪرڻ وارا اڪثر نوجوان اشاعتي ادارن ڏانهن ويندا آهن ايئن سهيل به اخباري حلقي ۾ اچي ويو. سهيل انگريزيءَ ۾ ايم اي ڪئي ۽ عملي طرح هن مهل تائين 45 کان مٿي سال پرنٽ ۽ اليڪٽرانڪ ميڊيا کي ڏيئي چڪو آهي.  

                جيل ۾ سهيل سان سٺي هم خيالي ٿي وئي. ايتري حد تائين جو آئون فخر سان چوندو آهيان ته سهيل منهنجو جيل جو ساٿي آهي. ٻه ٽي سال اڳ (2010 ۾) آڪسفورڊ يونيورسٽي پريس لاءِ تيار ڪيل ڊڪشنري جي لانچنگ حيدرآباد ۾ رکي سون، ته OUP جي MD امينه سيد به حيدرآباد هلي. حيدرآباد پريس ڪلب ۾ پريس ڪانفرنس رکي وئي. سهيل به آيو ته مون امينه کي فخر سان تعارف ڪرايو  هو ته ”هي آهي سهيل سانگي، منهنجو جيل جو ساٿي !“  عام طور تي ماڻهو پنهنجو نوڪري ۽ ڪيريئر بچائڻ لاءِ جيل وڃڻ جهڙيون ڳالهيون آجرن جي آڏو نه ڪندا آهن، باقي ٻين جي سامهون وڏيون ٻٽاڪون هڻندا آهن. آئون به هروڀرو ڪونه ڳالهائيندو آهيان  پر جيڪا ڳالهه ضمير موجب ٺيڪ آهي، مون ڪڏهن به چوڻ يا ٻڌائڻ ۾ هٻڪ محسوس نه ڪئي آهي. امينه تعارف ٻڌي هيڪر ته ککي وکي ٿي وئي، پر پوءِ کِلي ماٺ ٿي وئي، سمجهي وئي هوندي ته صحافت ۽ جيل ڪيترا لازم ملزوم ٿين ٿا.

                سو، سهيل منهنجو جيل جو ساٿي ٿيو. ڇا اسانجي اڳ به پاڻ ۾ ڪا ملاقات هئي، يا جيل وارن مهرباني ڪري اسان جي ملاقات ڪرائي هئي؟ منهنجو خيال آهي ته هڪ ملاقات ٿيل هئي. آئون ڪو پريس رليز ڏيڻ لاءِ ”سنڌ نيوز“ اخبار حيدرآباد ويو هئس. ريشم گلي واري چاڙهيءَ ويجهو ٽانگا اسٽينڊ جي ڀر ۾ آفيس هئي. سهيل سب ايڊيٽر هو، مان وٽس گهڻو نه ترسيو هئس جو ٻين اخبارن کي به ساڳي خبر ڏيڻي هئي. اها ملاقات سهيل کي ياد نه آهي. سندس چوڻ آهي ته اسانجي هڪ ملاقات تڏهن ٿي هئي جڏهن هو اسانجي گهر آيو هو، اها ملاقات مون کي ياد نه آهي. پر هيءَ جيل واري ملاقات ته اسان ٻئي قيامت تائين وساري نه سگهنداسين.  

                اجھو! مون کي سهيل سان هڪ ٻي ملاقات ياد پئي اچي، اها ملاقات تِلڪ چاڙهيءَ جي هيٺيان اسٽيشن روڊ تي يونيورسل بُڪ ڊپوءَ جي ڀر  ۾ ”قومي ڪتاب گهر“ تي ٿي هئي، اتي سهيل 1968ع کان ”سيلز مين“ طور ويهندو هو ۽ ڪتاب پيو پڙهندو هو. تازو، مون کي سهيل ٻڌايو ته اهو ”پارٽيءَ جو دڪان“ هو. سهيل 1969ع ۾ پارٽيءَ جو ميمبر ٿيو. اها ڳالهه به هن مون کي تاوز ئي (آگسٽ 2013 ۾) ٻڌائي نه ته هيترن سالن ۾ نه مون ڪڏهن هن کان پڇيو ۽ نه ئي هن ڪا اهڙي لکا ڏني. سو اسان جي ڊگهي ملاقات جو بندوبست ملڪ جي ’غيبات‘ ڪيو. ملڪ جي ’غيبات‘ ڪير آهي؟ توهان پاڻ سمجهي وڃو! اها 1980ع جولاءِ جي بنهه پڇاڙي هئي جو سهيل سانگي نوڪريءَ جي تلاش ۾ پهريون ڀيرو ڪراچي آيو. منهاج برنا ۽ تنوير شيخ  اخباري دنيا جا ڪامريڊ اڳواڻ هئا، کيس ڪراچي اچڻ جي صلاح ڏنائون. بس! اها صلاح پنهنجو ڪم ڪري وئي! ان جي پويان قدرت جو راز هو، همراهه ايئن جهٽجي ويو جيئن عقاب جهرڪيءَ کي کڻي وڃي.  

                ان ڏينهن هو ڪراچيءَ ۾ ڪنهن هنڌ ٿيلهو رکڻ لاءِ ڪمال وراثي جنهن کي سڀ ’ڀيا‘ چوندا هئا، جي پڇا ڪندو آيو ۽ اچي پاڪستان ڪوارٽرز ۾ هڪ گهر جو دروازو کڙڪايائين، در کليو، کيس اندر اچڻ لاءِ چيو ويو ۽ پوءِ کيس هڪ ڪنڊ ۾ ويهاري ڇڏيائون. ان ڏينهن ’غيبات‘ ان گهر تي به قابض هئي ۽  هر ان ماڻهوءَ تي قابض ٿيڻ لاءِ تيار هئي، جيڪو اتي اچي.  ساڳئي ڏينهن ڪمال وارثي ۽ شبير شر سميت پروفيسر جمال نقوي پيپلز ڪالونيءَ جي ڪنهن جاءِ مان گرفتار ٿيا هئا. بعد ۾ نذير عباسي به اتي آيو هو  پر خطرو محسوس ڪري هڪدم واپس نڪري ويو. پر، غيبات ڪافي تيز هئي، ان جي ڪڍ لڳي ۽ هڪ بس مان کيس جهلي ورتائون. ان ڏينهن مون کي به پاڪستان ڪوارٽرز وڃڻو هو پر مون کان دير ٿي وئي. خبر ناهي ته ڪيئن انهن گرفتارين جي خبر اڏاڻي، ڪجهه ئي دير ۾ مون کي محسن زيديءَ فون تي اطلاع ڏنو ته جمشيد ڪوارٽر تي ڇاپو لڳو آهي جتان شبير، ڀيا (ڪمال وارثي)، ماستر صاحب (ڪامريڊ جمال)، سهيل سانگي ۽ ٻيا گرفتار ٿيا آهن. مون کان ڇرڪ نڪري ويو هو. آئون سمجهي ويس ته  هاڻي غيبات کي مون تائين پهچڻ ۾ دير نه لڳندي، ڇو ته اهو ڇاپو  پڪ سان جمشيد ڪوارٽرز تي نه، پر پاڪستان ڪوارٽرز  واري جاءِ تي لڳو هوندو جيڪا مون شبير کي رهڻ  ۽ سنڀالڻ لاءِ ڏني هئي. شبير مون وٽ آفيس ۾ ٽائپسٽ هو. ۽ پاڪستان ڪوارٽر ۾  منهنجي آفيس جو سامان ۽ فائل رکيل هئا ۽ اها به خبر هئي ته شبير  اتي پارٽيءَ لاءِ پمفليٽ ٽائيپ ڪندو آهي. اڃا هڪ ڏينهن اڳ مو ن کي چيو هئائين ته ”ڪامريڊ ڄام ساقيءَ جي تقرير اچڻي آهي، سڀاڻي کڻي وڃجانءِ، ورهائڻ لاءِ.“

اها تقرير اصل ۾، ڪامريڊ جي 1978ع ۾ گرفتاريءَ کانپوءِ عدالت ۾ ڏنل اسٽيٽمينٽ هئي. جيڪا  پوءِ (1985 ۾) ڪتابي صورت ۾ ”فتح آخر عوام جي ٿيندي“ جي ٽائيٽل سان شايع ٿي. اهو عدالتي ڪاغذ هو، ڪا غيرقانوني ڳالهه ڪونه هئي پر اهو مارشل لا جو دور هو ۽ اهڙا بيان ڇاپڻ ورهائڻ، پڙهڻ، يا رکڻ وڏو ڏوهه هو. مون کي اها به خبر هئي ته شبير شر سنڌي ٽائپ رائٽر تي هلچل اخبار جا اسٽينسل تيار ڪندو آهي ۽ مون کيس اَجهو ڏنو هو. اهو سڀ مارشل لا جي قانون تحت ڏوهه هو، پر ڇا ڪجي؟ مون کي انور پيرزادي چيو هو، ”پارٽي چاهي ٿي ته تون شبير کي ڪنهن جاءِ تي رک، بس ٿورن ڏينهن لاءِ، جيسين ڪو ٻيو بندوبست ٿئي!“ هي هڪ اهڙي پارٽيءَ جو حڪم هو جنهن جو آئون ميمبر به ڪونه هئس پر ’ابڙو‘ ڇا ڪندو؟ ڪو پناهه يا اَجهو گهرندو ته ضرور ملندي. اها روايت به شايد اسان جي رتَ ۾ آهي. بابا سائين به ڪامريڊن کي پناهه ڏيندو هو.  اها ٻي ڳالهه آهي ته جوانيءَ ۾ خاڪسار تحريڪ جو ميمبر رهڻ کان پوءِ ڪڏهن به ڪنهن پارٽيءَ جو رسيدي ميمبر ڪونه هو. هن رسول بخش پليجي جي چوڻ تي ڪامريڊ عارب کي ڪافي وقت اجهو ڏنو هو، توڻي جو پاڻ عوامي تحريڪ جو رڪن به ڪو نه هو.

                محسن زيديءَ جي وقتائتي ٽيليفون مونکي محتاط ڪري ڇڏيو. مون نيم روپوشي اختيار ڪئي، انور پيرزادي سان صلاح ڪرڻ لاءِ رات جي پيٽ ۾ سفر ڪري ڳوٺ ٻلهڙيجي وڃي نڪتس. اسٽوپا تي ويهي ڪجهه ڳالهيون طئي ڪيوسين. انور جي صلاح هئي ته مونکي ڪجهه وقت ملڪ کان ٻاهر نڪري وڃڻ گهرجي پر مان نه ويس. جلد ئي 9 آگسٽ تي خبر آئي ته نذير عباسي غيباتي تحويل ۾ شهيد ٿي ويو آهي. تازو (آڪٽوبر  2013 ۾)، مون کي ڪمال وارثيءَ ٻڌايو  ته ٻئي جايون غيبات جي نظر ۾ اچي چڪيون هيون. ۽ پارٽيءَ کي اهڙو اطلاع ڏنو ويو هو، پر سينيئر ڪامريڊن ان اطلاع کي سنجيدگي سان نه ورتو.

                مون سهيل کي گهڻي وقت کان ڪونه ڏٺو هو. بس اخبار جي آفيس ۾ يا ڪتاب جي دڪان تي اها ئي ڪجهه منٽن جي سرسري  ملاقات. منهنجي ذهن ۾ بس اهو ئي ڇوڪراٽ پيو ڦِري (اڃا به اهڙو ئي آهي، فقط مٿي ۾ تجربي جا اڇا وار پئجي ويا اٿس). جنهن ماڻهوءَ سهيل سانگيءَ جو فقط نالو ٻڌو آهي، اهو هن کي پڪ ڪا وڏي ڳري بلا سمجهندو هوندو، پر  جڏهن کيس اکين سان ڏٺو هوندو، ڏاڍو حيران ٿيو هوندو. هلڪو ڦلڪو  ڪمزور ٿري قد بت، نه مولوي عبدالڪريم (ڄام ساقي) واري ڏاڙهي، نه شير سنڌ وارا شهپر، نه وري ڪا ظاهري حشمت! نه ڳالهائڻ ۾ حفيظ قريشي سينيئر وارو جوش ۽ وِلوِلو، نه موٽر نه گاڏي! ته پوءِ ڪنهنجو ڌيان ڏانهنس ڪيئن وڃي؟ هو عام ماڻهن ۾ ايئن گم هوندو آهي جيئن پاڻيءَ جو ڦڙو سمنڊ ۾ پاڻيءَ سان پاڻي ٿي ويندو آهي.  ها! هو تڏهن نظر ايندو جڏهن  ڪنهن مامري جو باريڪ بيني سان تجزيو ڪندو هجي. هو پنهنجن دليلن مان نظر ايندو آهي. دليل ڏيڻ مهل نه آواز اوچو ڪندو آهي، نه وري ڪنهنجو پٽڪو لاهڻ جي ڪوشش ڪندو آهي. پنهنجي ڳالهه تي مدلل طريقي سان بيٺو هوندو. ڪنهن کي ڳالهه سمجهه ۾ نه آئي ته ٻئي انداز سان ڳالهه ورجائي سمجهائيندو. توهان جو اختلاف اڃا به جاري هوندو ته چوندو ” ڏسي وٺ! مون کي ايئن نه ٿو لڳي!“ سهيل اندر ۾ ڪيترو به حساس هجي، جذباتيت حاوي نه ٿيندي اٿس. مجموعي طرح سنجيدو ماڻهو آهي. ايڏو به نه! پنهنجي حلقي ۾ ڀوڳ چرچو ڪندو ۽ سهندو آهي. پر، سهيل جهڙي ماڻهوءَ سان وقت ڀوڳ چرچي ۾ وڃائجي، مون اهو ڪڏهن به مناسب نه سمجهيو آهي. جيڪا سا گهڙي سوچ ويچار ۾ وڃي ته چڱو!  

مان سندس مضمون پڙهندو آهيان يا ڪنهن چئنل تي سندس تجزياتي راءِ ٻڌندو آهيان ته سندس ڳالهه ۾ ڪافي جان محسوس ٿيندي اٿم. توڻي جو هر تجزيه نگار وٽ پنهنجا دليل، زاويا ۽ حالتن جي ڇيد جو طريقو ٿئي ٿو. سهيل جي دليلن  ۽ طور تڪ ۾ وڏو وزن هوندو آهي، خاص ڪري ڇيد کانپوءِ اهو ٻڌائڻ ته مستقبل ۾ هو ڇا پيو ڏسي! اهڙي تربيت پارٽيءَ جي ڪلاسن ۾ ٿيندي هئي. جنهن ۾ ”حڪومت جي اندر جون ڳالهيون“ ته ڪنهن وٽ به ڪو نه هونديون هيون پر اخباري خبرن تي ڏاڍي گهري نظر رکي ويندي هئي. هر سياسي واقعي ۽ سياسي بيان تي گهري سوچ ويچار ڪري هر ڪو پنهنجي راءِ ڏيندو هو. جڏهن اها راءِ ڪنهن ڪلاس ۾ بحث جي ذريعي پختي ٿيندي هئي ته ان راءِ کي وزن ملندو هو. اها هروڀرو غلط به ڪو نه هوندي هئي، اها ئي راءِ اڳتي هلي سچ ثابت ٿيندي هئي. منهنجي خيال ۾ اهي ئي ڪلاس ۽ ڇنڊ ڇاڻ جو طريقو سهيل کي صحافتي دنيا ۾ ڪم آيو. اڄ جڏهن هو ڪنهن چئنل جي سڌي نشريات ۾ اعتماد سان ايئن چوي ٿو ته ”اها ڳالهه مون کي سمجهه ۾ نٿي اچي“ ته ان جو مطلب آهي ”ائين ڪونه ٿيندو“ يا جڏهن هو ائين چوي ٿو ته ”ائين ٿيڻ، سمجهه ۾ اچي ٿو!“ ته ان جي معنيٰ آهي ”ائين ٿيڻ جا وڏا امڪان آهن.“

                مون کي ياد آهي، اهڙن تجزياتي ڪلاسن ۾ ڪو سينيئر دوست ڪجهه هن ريت سوال بحث لاءِ رکندو هو ”پير صاحب پاڳاري ستارن جي چال هن ريت پڙهي آهي ... فلاڻو جنرل صاحب هنن اکرن ۾ فلاڻي ڳالهه پيو چوي! مولانا فلاڻو هي لفظ استعمال پيو ڪري. آمريڪي خارجه سيڪريٽري ۽ پينٽاگون هيءَ ڳالهه پيا چون ... توهان سڀني اهي بيان پڙهيا آهن ... توهان جي خيال ۾ هُو سڀ ڇا ٿا چون؟“ پوءِ جو ڳالهه هلندي هئي ته ڪلاڪ ڏيڍ جي بحث مباحثي ۾ تازي صورتحال جي ڄڻ ”ايڪسري رپورٽ“ اچي ويندي هئي. ان ريت سوچڻ جي تربيت به ملندي هئي ۽ گڏيل راءِ به جڙندي هئي. آخر ۾ اهو ئي سينيئر دوست سڄي بحث کي ٺاهي جوڙي ان جو ’مغز‘ ڪڍي وچ تي رکندو هو، جنهن کي اڄڪلهه ٽي وي اينڪر ”سَم اپ ڪرڻ“ چوندا آهن.

                سنڌي ماڻهو ڪچهرين جا ڪوڏيا هوندا آهن، روزانو هر وقت ڪچهريءَ ۾ هوندا آهن پر سندن ڪچهري ۾ موضوع پيو بدلجندو آهي، ڳالهه مان ڳالهه پئي نڪرندي ۽ الائي ڪٿان کان ڪيڏانهن هليا ويندا. پڇاڙيءَ ۾ ”يارو ياري!“ چئي وڃي ڪٿي ڊهندا. انڪري، مان انهن دوستن کي چوندو آهيان ته ”ٻيلي ڪچهري ڀلي ڳالهه آهي، ڀلي ڪريو پر ٻليءَ وانگر ست گهر نه مٽايو. ڪچهريءَ جو ٽائم ۽ موضوع مقرر ڪري، ان تي پنج اٺ دوست گڏجي خوب ڇنڊ ڇاڻ ڪريو ... هر ڀيري هڪ نئين موضوع تي مڪمل ڇنڊ ڇاڻ. ڀلي اها ذهني ورزش پاڙي جي سطح تي هجي يا وري ڪنهن به سطح ۽ سوچ جي دوستن جي هجي. هر ڪو موضوع تي پڙهي اچي ۽ ذهني ورزش ۾ شريڪ ٿئي. ان سان ٻيو ڪجهه ٿئي يا نه ٿئي، مامرو ته سمجهه ۾ ايندو. ادا! ڀلي سياسي موضوع کڻو. ڀلي امپورٽ ۽ ايڪسپورٽ جو موضوع کڻو، ڀلي فلڪيات تي ڳالهايو، ڀلي جهنگلي جيوت ۽ شڪاريات تي ڳالهايو، ڀلي زرعي مسئلن ۽ جنس تي ڳالهايو پر هڪ موضوع تي ڳالهايو ۽ ڇنڊ ڇاڻ پوري ڪري اُٿو.

                سهيل سان جيل ۾ گهاريل ڏينهن جو تفصيل منهنجي ”جيل جي ڊائري“ ۾ ڏنل آهي. آئون انهن ڏينهن کي سنڌ ۽ خدا جي خلق کي گهِرائي ۽ مڪمل ڌيان سان سمجهڻ ۽ پرکڻ جا ڏينهن سمجهندو آهيان. ڏک، سُور، اڪيلايون، محروميون، بي وسي ۽ انهن ڏينهن ۾ هڪ سٺو سلجهيل ساٿي، آئون پاڻ کي سنڀالي ويس. اها سهيل جي ئي صلاح هئي ته اسان جيل ۾ ”سنڌي ادبي سنگت“ جون گڏجاڻيون شروع ڪريون. اها به سهيل جي صلاح هئي ته آئون ڪامريڊ جمال نقويءَ کان، جيڪو انگريزي ادب جو استاد هو، کان تنقيد نگاريءَ جي تاريخ تي ليڪچر وٺان. اهي ٻئي مثبت سرگرميون هيون، نتيجي طور ”اسان جيل کي ڪَٽِي ڇڏيو“ نه ته ”جيل اسان کي ڪٽي ڇڏي ها!“

                آئون جيل ۾ ڪا به ڪهاڻي لکندو هئس يا شاعري ’نازل‘ ٿيندي هئي يا ڊائريءَ جا ورق لکندو هئس ته سهيل کي پڙهائيندو هئس. وٽس ادبي تنقيد جي صلاحيت به چڱي آهي. توڻي جو هن پاڻ شاعري ۽ ٻيو تخليقي ادب لکڻ ڇڏي ڏنو هو. هن جو سڄو ڌيان اسان واري ڪيس تي هو جيڪو فوجي عدالت ۾ هلي رهيو هو، پر ڪيس متعلق سوچ ويچار جي انهن بيٺڪن ۾ آئون شريڪ نه هئس. وڏا وڪيل ۽ پروفيسر سان گڏ ڄام ساقي موجود هئا، آئون ان جهنجهٽ ۾ نه پيس، منهنجي رهنمائي بابا سائين ڪئي ۽ مون پنهنجو سڄو ڌيان لکڻ ۽ پڙهڻ تي رکيو. اهو سهيل جو ئي ڪم هو ته هن ڪيس کي ڪهڙي رخ ۾ هلائڻ گهرجي. قانوني معاملا قانوني هوندا آهن پر سياسي ساک ۽ ويڙهه جون تقاضائون ڪي ٻيون هونديون آهن. انڪري خود وڪيلن کي به سمجهائڻو پوندو آهي ته هو عدالت ۾ ڪهڙو مؤقف اختيار ڪن. آئون جيل وارن ڏينهن ۾ گهاريل گهڙين ۾ نٿو وڃان جو اهي اڳ ئي جيل جي ڊائري ۾ لکيل آهن. ڪا رهجي ويل ڳالهه ياد آئي ته ضرور لکندس.

ڄام ساقي ڪيس ۾ سهيل جي مصروفيت ٻين کان مختلف ۽ ڪارائتي هئي. هو هر وقت اهو سوچيندو هو ته ڪيس ڪيئن وڙهجي؟ دفاع ڪيئن ڪجي؟ بچاءَ جا شاهد ڪهڙا هجن؟ ڪنهن کان ڪهڙا سوال پڇجن؟ اها سڄي تياري سهيل ڪندو هو. مختلف اخبارون هٿ ڪري انهن مان تراشا تيار ڪري ، انهن جي بنياد تي ڪيس اڳتي وڌائڻ ۾ سهيل وڪيلن جي خوب مدد ڪئي. کيس ڄام ساقيءَ واري حيدرآباد ڪيس جو به تجربو هو. عدالت ۾ وڪيلن کي گهڙي گهڙي صلاح ڏيڻ سبب ڪيس جو پرزائِيڊنگ آفيسر ڪرنل عتيق (جيڪو جنرل عبدالوحيد ڪاڪڙ جو ڀاءَ هو) سهيل کي JAG branch of accused چوندو هو. بچاءَ جي شاهدن ۾ سياسي اڳواڻن کي گهرائڻ جو خيال به بنيادي طرح سهيل جو هو، جيڪو ٻين ڪامريڊن به پسند ڪيو.

سهيل صحافيءَ طور ڪيئن لکي ٿو؟ اهو ته ڪاوش ۽ ٻين اخبارن ۾ موجود سندس لکڻين مان ظاهر آهي. پر سندس اندر ۾ موجود باضمير  تخليقي ليکڪ جي جهلڪ سندس ان بيان ۾ آهي جيڪو هن خاص فوجي عدالت نمبر 4 ۾ 9 جنوري 1983 تي داخل ڪرايو هو. اهو بيان ڄڻ ته بي هٿيار بيٺل عوام جي هڪ پُر امن عيوضيءَ جي دانهن آهي، جيڪو   وقت جي حاڪمن کان سوال پڇي ٿو. هُو ڄڻ ته ڪنهن درٻار ۾ بيهي بادشاهه سلامت جي خليفن کي تاريخ جي پس منظر ۾ انسان جي جدوجهد کان واقف ڪري ٿو ۽ پنهنجو زندگيءَ جو زاويو سمجهائي ٿو،  مون کي ياد آهي ته هن پنهنجي عدالتي بيان ۾ ڇا لکيو. ڪجهه ٽڪرا ياد اٿم: ”مان صحافي آهيان، سچائيءَ جو ڳولائو آهيان. قلمڪار عوام لاءِ خواب ڏسندو آهي. ۽ خوشين ۽ لفظن کي معنائون پارائيندو آهي. ... مان ٿرپارڪر کي ڪوهه مري نه ٿو چوان جو اتي  جبلن جي جهرڻن بدران واريءَ جون ڀِٽون هونديون آهن، اتي پاڻيءَ جي خوفناڪ اڻاٺ آهي، اسان آواره  ڪڪرن کي حسرت سان ڏسندا آهيون  ... اصل مسئلو سماج جي اوچ نيچ ، بک ۽ بيروزگاريءَ جو آهي. .... مان بد ديانت ڪوٺجڻ نه ٿو چاهيان، صحافت ايمانداريءَ جو نالو آهي .... اڄ مان ڪي ايم سي اسپورٽس ڪامپليڪس ۾ ملزم جي ڪٽهڙي ۾ بيٺو آهيان، جتان ڪجهه فرلانگن تي، اڌ صدي اڳ نامور صحافي مولانا محمد علي جوهر خالقڏني هال ۾ ملزم ٿي بيٺو هو. اسان انهن عظمتن جا وارث آهيون ته پوءِ اڄ منهنجي هٿ ۾ هٿڪڙيون ڇو آهن؟ ... مان مطمئن آهيان ته مون منهنجي ننڍڙيءَ کي انسانيت جا جيڪي اعليٰ قدر ، انساني همدردي ۽ جرئت جو ڪهاڻيون ٻڌايون هيون، انهن تي قائم آهيان. مون پنهنجي ايندڙ نسل سان منافقي نه ڪئي آهي. نه غداري ڪئي. زندگي ۽ قيد ڪا حقيقت نه ٿا رکن، مان مطمئن آهيان“. هو ڪيڏي نماڻائيءَ سان ڪيڏو نه تلخ ڳالهائي رهيو هو!

                1985 ۾ جڏهن اسان جي ڪيس ۾ فيصلو آيو ته سهيل به باعزت بري ٿيو ۽ حيدرآباد هليو ويو، جيل ۾ چوندو هو ته ”آئون پنهنجن ستن پيڙهين کي جهلي ويندس ته ڪراچي نه وڃجو، ڇو ته جڏهن روزگار لاءِ آئون پهريون ڀيرو ڪراچي ويس ته جهلي کڻي جيل واڙيائون!“

                جلد ئي، 86-1985 ڌاري مون به صحافت ۾ پير پاتو. صحافتي مضمون، آئون جيل وارن ڏينهن ۾ لکي مختلف نالن سان هلال پاڪستان ۽ امن اخبار ڏانهن موڪليندو هئس. ايئن ڪالم نويسيءَ ڏانهن مائل ٿيس، باقي پريس رليز ۽ خبرون ٺاهڻ جو ڪم ته ادبي سنگت وارن ڏينهن ۾ به ڪندو هئس. سهيل وري حيدرآباد ۾ ئي اخباري نوڪريءَ ۾ لڳو. جيل مان آزاد ٿيڻ کانپوءِ ڪجهه ڏينهن حيدرآباد ۾ پنهنجي ڪٽنب سان ۽ پوءِ ڳوٺ ۾ وڃي ٿڪ ڀڳائين. هڪ مهينو کن ٿڪ ڀڃي وري حيدرآباد آيو ۽ سينيٽر شيخ علي محمد جا ٿورا مڃڻ ويو جيڪو آفتاب اخبار جو مالڪ ۽ ايڊيٽر به هو، ۽ اسان واري ڪيس ۾ سهيل جو بچاءُ وارو شاهد به هو، جنهن ۾ هن سهيل جي ذميوار شهري هجڻ ۽ ڪنهن به قسم جي غلط ڪم ۾ ملوث نه هجڻ جي ساک ڏني هئي.

                شيخ صاحب وڏي عمر وارو، گڻائتو ۽ مهربان شخص هو. هُن سهيل کي پنهنجي اخبار ۾ ڏينهن واري شفٽ جو انچارج ڪري ڇڏيو، جنهن ۾ سهيل ڪڏهن ڪڏهن ايڊيٽوريل به لکندو هو. سال کن کانپوءِ سهيل عبرت اخبار ۾ اسٽنٽ ايڊيٽر ٿيو، پر پوءِ جڏهن علي قاضيءَ وارن اردو ۾ ”سفير“ اخبار ۽ انگريزيءَ ۾ ”سنڌ آبزرور“ ڪڍي ته هُو کيس اوڏانهن ڇڪي ويا. سهيل ”سفير“ ۾ انچارج ايڊيٽر هو. آئون آزاديءَ کانپوءِ سهيل سان آفتاب ۽ سنڌ آبزرور ۾ به مليو هئس. حيدرآباد جي اخبارن جو حال پورو سارو هو، عام صحافيءَ جو گهر ان پگهار ۽ ”واعدن“ تي هلي نه ٿي سگهيو. سهيل هڪ ڀيرو ٻيهر ان وقت ڪراچي آيو جڏهن ڪراچيءَ مان ”عوامي آواز“ نڪرڻ جو ماحول جڙي تيار ٿيو.

                عوامي آواز ڪامريڊن تي ٻڌل ادارو هو، جبار خٽڪ جيڪو ڄام ساقي ڪيس ۾ ”مفرور“ هو ۽ دير سان گرفتار ٿيو هو، ان جو روح روان هو، هن سان گڏ امداد اوڍو ۽ ناصر داد بلوچ هئا. سڀني پاڻ ۾ ڦوڙي ڪئي، ناصر داد پئسا سيڙپ ڪرڻ ۾ ماهر هو، پر ايڊيٽرشپ جو سوال پنهنجي جاءِ تي موجود هو ته اها ڪنهن کي ڏجي؟ سهيل سانگيءَ کي ورڪنگ پارٽنر بڻايو ويو، جنهن اچي پنهنجي تجربي ۽ امداد اوڍي سان گڏجي ٽيم جوڙي، ۽ سڄي سنڌ ۾ ڇنڊي ڇاڻي ايجنٽ ۽ نمائيندا مقرر ڪيا. هڪ ڀيري سهيل ٻڌايو ته ايجنٽ ۽ نمائيندا مقرر ڪرڻ واري ان هڻ وٺ دوران هڪ شهر جي نوجوان هڪ دلچسپ ۽ اهم صلاح ڏيڻ چاهي. هُو سهيل کي هلندڙ ميٽنگ مان ٻاهر وٺي ويو ۽ ڏاڍي خلوص سان چيائين ”سائين هڪ خاص صلاح ڏيڻي اٿم ، مهرباني ڪري ايجنٽ ۽ نمائيندا سوچي سمجهي رکجو“.  سهيل سندس خلوص کي ڏسي پنهنجي خاص سنجيده انداز ۾ کيس چيو ”يار واهه جي ڳالهه ڪئي اٿئي، مون ته اها ڳالهه سوچي ئي ڪونه هئي ته ڪو اهو ڪم سوچي سمجهي ڪبو آهي!“

                اهي 1989 وارا ڏينهن هئا. عوامي آواز جي آفيس لياريءَ ۾ اٺ چوڪ جي ويجهو ڪنهن جاءِ تي هئي، مان هلال پاڪستان ۾ سب ايڊيٽر هئس، دستگير ڀٽي انهن ڏينهن ۾ هلال جو ايڊيٽر ٿي آيو هو، اهي ئي ڏينهن هئا جڏهن ڪمپيوٽر تي سنڌيءَ ۾ لکڻ جو نظام ڊيويلپ ٿيو هو، ماجد ڀرڳڙي، اياز شاهه جي محنتن سان تيار ٿيل سندن تربيت ڏنل نوجوان ڪمپيوٽر تي سنڌي ڪمپوزنگ ڪرڻ لڳا هئا. عوامي آواز کي هڪ وڏي ٽيم جي ضرورت هئي، فيلڊ کان وٺي رپورٽنگ، ايڊيٽنگ ۽ ڪمپوزنگ سيڪشن تائين، پر هڪ وڏو بحران هو. سنڌي اخبارون ڪا وڏي صنعت ڪونه هيون، ان کان اڳ هينڊ ڪمپوزنگ هلندي هئي ۽ شهرن ۾ ڪو هڪ اڌ پگهاردار رپورٽر هوندو هو، وڏي ۾ وڏيون سنڌي اخبارون هلال پاڪستان ۽ عبرت هيون، جن ۾ سمورا وڏا صحافي کپي ويا هئا.  

                عوامي آواز جي ابتدائي تربيتي مرحلي ۾ فقير محمد لاشاري (جنهن کي چيف ايڊيٽر ڪيو ويو هو) ۽ سهيل سانگي (ايڊيٽر)  باقي ٽيم کي تربيت ڏيندا هئا، آئون به جڏهن هلال پاڪستان ۾ پنهنجو نوڪري جو وقت (صبح جو 9 کان 5 شام) پورو ڪري اٿندو هئس ته پراڻي ڪامريڊي جذبي تحت عوامي آواز ۾ رات واري شفٽ ۾ رات جو 12 وڳي تائين نئين ٽيم کي ايڊيٽنگ سيکاريندو هئس. صبح جو 9 وڳي وري هلال پاڪستان ۾ ... ايئن ٽن مهينن تائين اهو تربيتي سلسلو هليو ۽ پوءِ عوامي آواز هلي پئي. امداد اوڍو ۽ سهيل سانگي ۽ هنڌ هنڌ نمائندا، ايجنٽ ۽ رپورٽر مقرر ڪري چڪا ۽ عوامي آواز لانچ ٿي ۽ سنڌ جو سڄو ڪامريڊ لڏو عوامي آواز کي پنهنجي اخبار سمجهڻ لڳو پوءِ خبر ناهي ته ڇا ٿيو جو فقير محمد لاشاري ”عوامي آواز“ ڇڏي واپس هلال پاڪستان  موٽي آيو.  شايد فقير محمد کي `عوامي آواز‘ جي ڪاميابيءَ تي شڪ هو، يا شايد سندس ذهن ۾ ’جاڳو‘ اخبار جو خيال ڪَـرَ کڻي رهيو هو.

                عوامي آواز جي سڄي ٽيم نئين هئي، ۽ ڪامريڊ لڏي تي ٻڌل هئي. ڪامريڊ لڏي کي صحافت جي ميدان ۾ آڻڻ جو خيال به سهيل جو هو، ان خيال سان سڀ سهمت هئا جو تجربيڪار صحافي لڏي جو ڪال هو.  ڪامريڊن کي صحافت ۾ آڻڻ واري تجربي اڳتي هلي اخبارن جي مزاج کي بدلائي ’عوامي ۽ مزاحمتي‘ ڪري ڇڏيو. ٻئي طرف، فقير محمد جي هِلال پاڪستان ڏانهن موٽ کانپوءِ عوامي آواز لاءِ انور پيرزادي کي آڇ ڪئي وئي. انور عوامي آواز سٿ ۾ جوائنٽ ايڊيٽر طور شامل ٿيو، پر مون ڏٺو ته هو سڄو عرصو مجموعي طور غير مطمئن هو. ايئن ڇو هو؟ آئون نٿو ڄاڻان. انور به 1991 ۾ عوامي آواز ڇڏي وري انگريزي پريس طرف فري لانس صحافي طور هليو ويو.  

                هلال پاڪستان ۾ پيپلز پارٽيءَ جي سياسي مداخلت سبب ماحول خراب ٿيو اها 1990 ڌاري جي ڳالهه آهي. هلال پاڪستان جو نئون ايڊيٽر سيد سڳورو سيد عالم شاهه سپاف جو اڳواڻ هو. هن اچڻ شرط اسان کي چيو ته ”توهان ڪميونسٽ پيپلزپارٽيءَ جي خلاف آهيو ۽ ان کي نقصان ڏيڻ ٿا چاهيو“ پوءِ اسان تي ماحول تنگ ٿيو. مون، عبدالرحمان نقاش ۽ نصير اعجاز هڪ ئي هفتي ۾ هلال ڇڏي. آئون ”پُڪار“ سکر جو ايڊيٽر ٿيس جيڪا صفدر شاهه جي اخبار هئي پر ڪاغذن ۾ مرشد گيلاني ان جو مالڪ هو. ان دوران ڪراچيءَ مان فقير محمد جي ادارت جو جاڳو ۽ حيدرآباد مان علي قاضيءَ جي ادارت ۾ ڪاوش اخبارون نڪتيون ته هڪ اتساهه ڏيندڙ صحافتي ماحول جڙي پيو. سڀني اخبارن ۾ دوست هئا پر سڀني اخبارن جي هڪٻئي تي مقابلي واري نظر هئي، ڪاوش جلد ئي گهڻو اڳتي نڪري وئي، ان جا گهڻائي سبب هئا جن تي ڪنهن ٻئي هنڌ لکبو.

سهيل جو صحافتي سفر جيڪو SNSF جي پارٽي پمفليٽن ۽ ڪتابڙن کان شروع ٿيو ، هاڻي وچ سِي ۾ هو. آر يا پار واري صورتحال اچڻ واري هئي. پر مون کي ياد اچي ٿو سهيل جارح ۽ عملي صحافت سان گڏوگڏ سٺو ٽرانسليٽر به رهيو آهي. هن مرڪزم تي به ڪجهه ڪتاب ترجمو ڪيا ۽ ڇپايا، انهن ۾ گورڪيءَ جو ناول ’ماءَ‘ ۽ مارڪسي فلسفو به شامل آهي.  هڪ ڀيري سهيل پاڻ ٻڌايو ته شاگرديءَ واري زماني ۾ هو سنڌ نيشنل اسٽوڊنٽس فيڊريشن  جو رسالو ’پرهه ڦُٽي‘  به ڪڍندو هو. هن SNSF جي فرنٽ تي پنج سال پارٽي انچارج طور ڪم ڪيو ۽ جڏهن ڄام ساقي انڊر گرائونڊ ٿيو ۽ بنگال آپريشن وقت مير ٿيٻو ۽ ميهر حسين شاهه ڇڏي ويا هئا، تڏهن هن SNSF جي تنظيم ڪاري به ڪئي هئي.

                سال 1993 ۾ مون ڪراچيءَ مان ماهوار ’روح رهاڻ‘ جاري ڪئي جو نيم ادبي ۽ نيم سياسي پرچو هو، ته سهيل سان به صلاح ڪيم. ساڳئي سال سهيل به روزاني عوامي آواز ڇڏي ڪراچيءَ مان ئي تجزياتي خبرن تي مشمل مئگزين ’آرسي‘ ڪڍڻ لڳو. منهنجي آفيس بِي.وِي. ايس پارسي اسڪول (صدر) جي سامهون هئي. ”آرسي“ هفتيوار سياسي مئگزين هئي، ان جي آفيس هوٽل جبيس جي سامهون فليٽن ۾ هئي. اسان ڏاڍي محنت ڪئي پر ايجنٽ اسان کان ڏاڍا نڪتا. سهيل حيدرآباد موٽي ويو ۽ مان يوسف شاهين جي اخبار روزاني ”برسات“ ۾ ايڊيٽر طور ڪم ڪرڻ لڳس. (برسات تي جدا لکبو).

سهيل پنهنجي زندگيءَ ۾ سڀ ڪم نهايت خاموشيءَ سان ۽ پوري ارپنا سان ڪيا. شادي به ايئن ئي خاموش بغاوت سان ڪيائين، سو به چون ٿا ته ڄڃ ٽانگي ۾ ڪنواريتن جي گهر پهتي هئي. جڏهن سهيل جي شادي ٿي، تڏهن اسان جي واقفيت ڪونه هئي. پر 1980 کانپوءِ سهيل جي سڄي فئملي ڄڻڪ اسان جي گڏيل فئملي هئي. هن ڪيس سڀني ’جوابدارن‘ جي گهرن کي ملائي هڪ ڪري ڇڏيو هو. اهي ڪيس وارا ڏينهن ڀاڄائيءَ ڏاڍي تڪليف ۾ گذاريا، هو3 شهري عورت هئي پر سنڌي ماڻهن وانگر  حالتن کي مڙس ماڻهو ٿي منهن ڏنائين. ڏکئي وقت ۾ سهيل جو گهر  سنڀالي ويٺي هوندي هئي. جيل تي ۽ عدالت ۾ ننڍڙن ٻارڙن سان اچي نڪرندي هئي. افسوس! ان وقت سهيل کي اڪيلو ڪري وئي جڏهن سهيل بهتر ڏينهن ڏانهن وڌي رهيو هو. مون ڏٺو ان جدائيءَ سهيل کي جهوري وڌو هو.  جنهن شخص کي جيل نه لوڏي سگهيو، دوستن جي بيوفاين ۾ نه ٽُٽو، سو هاڻي جُهر ي پيو. شڪر ٿيو پاڻ سنڀالي ورتائين ۽ هاڻي پوٽن ڏهٽن  جي بهشت ۾ خوش آهي.

                منهنجو سهيل سان يادگيرين جو هڪ باب 2009 ۾ آهي، جڏهن مون سنڌي لينگويج اٿارٽي حيدرآباد ۾ ”انسائيڪلوپيڊيا سنڌيانا“ تي ڪم پئي ڪيو. هي هڪ وڏو ٽاسڪ هو  جنهن ۾ 15 سال اڳ جو لکيل مواد اپ ڊيٽ ۽ نئون مواد شامل ڪري ٽن مهينن ۾ اشاعت لاءِ موڪلڻ جوڳو بنائڻو هو. اٿارٽيءَ سان ورڪنگ تجربو ڪيئن رهيو، ان تي ڪنهن ٻئي ڀيري لکبو، پر ان ۾ سهيل جو حصو اهو هو ته مون کي الف ۽ بي جي سري هيٺ ايندڙ سياستدان ۽ سياسي تحريڪن تي مواد هنگامي بنيادن تي کپندو هو، جن جو ڪو حوالو موجود ئي ڪو نه هو. مون سوچيو ته اها انسائيڪلوپيڊيا ئي ڪهڙي جنهن ۾ سنڌ جي پارليامينٽرينز ۽ سياسي تحريڪن جو ذڪر نه هجي! مون ڄاتو ٿي ته اهو ڪم مختصر وقت ۾ فقط سهيل سانگي ئي ڪري سگهي ٿو ۽ هن سچ پچ ڪري ڏيکاريو. مون وٽ روزانو آفيس ۾ ڳچ وقت اچي لک لکان، ايڊيٽنگ ۽ پروف ريڊنگ کي لڳي ويندو هو، مواد هٿ ڪرڻ لاءِ مختصر وقت ۾ ڪا بهتر شئ (آئون بهترين ان ڪري نه چوندس جو ڀلو ڀليءَ جو چيهه آهي ئي ڪونه) اچي

سگهيو، ان ۾ سهيل جو سهڪار به شامل آهي.

                سهيل حيدرآباد موٽي ويو ته ڪاوش ۽ ڊان ڪراچي لاءِ ڪم ڪندو رهيو. ڪتابن جا ترجما ڪندو رهيو آهي، سنڌ يونيورسٽيءَ ۾ 2002 کان ماس ڪميونيڪيشن پڙهائي ٿو. انساني حقن واري ڪميشن پاڪستان جو ريسورس پرسن آهي ۽ بي بي سي لاءِ آن لائن رپورٽنگ به ڪندو آهي. سندس تجزياتي ڪالم ۽ رپورٽون هڪ وڏو ڪم آهي. ڪاش ڪو سهيڙي سگهي! هاڻي ته سندس پٽ به صحافت جي سٿ ۾ اچي ويا آهن. رياض ته بي بي سي سان لاڳاپيل آهي.

میڈیا بحران کے سندھی میڈیا پر اثرات

  میڈیا بحران کے سندھی میڈیا  پر  اثرات 

سہیل سانگی 

سندھی زبان تحریری شکل  میں موجود ہے اور اس کا متحرک میڈیا تینوں صنفوں آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ کی صورت میں رائج ہے۔ سوشل میڈیا پر ایکٹوازم اسکے علاوہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ میں آج بھی الیکٹرانک میڈیا تفریح جبکہ پرنٹ میڈیا معلومات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اگرچہ سندھ میں اردو، سندھی اور انگریزی اہم زبانیں ہیں جن میں اخبارات نکلتے ہیں۔اردو میڈیا کنزرویٹو، مرکزیت پسند، قصے کہانیوں والی، رجعت پسند اور سنسی پھیلانے والی، جبکہ انگریزی ایلیٹ طبقے کی میڈیا تصور کی جاتی ہے جو زیادہ لبرل اور پروفیشنل ہے۔

پاکستان میں میڈیا پر گفتگو کرتے وقت سندھی میڈٰیا کا ذکر الگ سے کیا جانا چاہئے۔ سندھی میڈیا پاکستان کی واحد مقامی زبان ہے جس کا الگ سے اپنا میڈیا ہے۔ جو سندھ کی رائے عامہ پراسی طرح سے اثرانداز ہوتا ہے جس طرح مین اسٹریم کہلانے والے میڈٰیا کسی اور صوبے یا عالقے میں ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق اور سندھ کے اشوز پر متحرک کردارادا کرنے کی وجہ سے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاتا۔ دوسرے کسی صوبے میں اس کا اپنا اتنا مضبوط پریس نہیں جس طرح سے سندھی پریس ہے۔

پہلا سندھی اخبار  1858 میں شایع ہوا۔ سندھی پریس قیام پاکستان سے پہلے ہی ایک متحرک پریس کے طور پر تھا، یہ پریس مسلم ہو یا کانگریسی ہر دو صورتوں میں اپنا سیاسی کردار ادا کرتا رہا۔ سندھی پریس نے سندھ کی بامبئی سے علحدگی کی تحریک میں سرگرم حصہ لیا۔ 

قیام پاکستان کے بعد جب روزنامہ جنگ اور روزنامہ نوائے وقت ایک مخصوص بیانیے کے ساتھ آئے، تب سندھی پریس کے پاس پہلے سے اپنا بیانیہ تھا۔ وہ لسانی و ثقافتی شناخت اور حقوق کے لئے بھرپور آواز اٹھارہا تھا۔

اس میں صرف پروفیشنلزم نہیں بلکہ ایک سیاسی اور جذباتی پہلو بھی تھا۔  جب ون یونٹ بنا اور ایوب خان نے اپنی آمرانہ تعلیمی پالیسی کے ذریعے سندھی کو ذریعہ تعلیم  سے محروم کیا تو سندھی ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ پریس نے بھی بھرپور آواز اٹھائی۔ 

70 کے عشرے کے آغاز میں ذوالفقارعلی بھٹو دور میں ایک ہی جھٹکے میں ستر سے زائد سندھی جرائد اور کتابوں پر پابندی عائد کردی گئی۔

جنرل ضیاء کے مارشل لا کے دوران سندھی پریس کو زیادہ سختی بھگتنی پڑی، کیونکہ سندھ اور سندھی پڑھنے والے ذوالفقارعلی بھٹو کا براہ راست حلقہ تھا۔ ضیا نہیں چاہتے تھے کہ اس حلقے سے کوئی مضبوط آواز اٹھے۔ اس نقطے کی بنیاد پر خود بھٹو کی بھی خاص نظر تھی۔ ملک کی مین اسٹریم میڈیا کی طرح سندھی اخبارات کو بھی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ 

ایوب خان اور بھٹو کے دور میں سندھی پریس میں سیاسی مواد کم اور سماجی، اور ثقافتی و ادبی مواد زیادہ نظر آتا ہے۔ 

اسی کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق  کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی نے سندھ کے ہر گلی اور گاؤں میں ایک تحرک پیدا کیا، جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر گئیں لیکن اس تحریک کی کوریج مین اسٹریم میڈیا میں کراچی تک محدود رہی، جو سندھ میں سرگرمی اور فکر پیدا ہوا اس وقت کے سندھی اخبارات اس کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

سندھی میڈیا میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب سیاسی کارکن صحافت میں شامل ہوئے، یہ لوگ بائیں بازو کی تحریکوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا فکری اور سیاسی رجحان اور جدوجہد اسٹبلشمنٹ یا بالائی طبقوں کے خلاف رہی تھی۔ یوں ایک نئی سندھی صحافت نے جنم لیا۔  

اس بڑی سیاسی مزاحمت کے بعد سندھی پریس نے باقاعدہ مزاحمتی کردار ادا کیا۔ بائیں بازو کے لوگ سندھی پریس میں داخل ہوئے۔ جس سے پریس ریڈکل ہو گیا اس میں سیاسی پہلو اور دانشوریت بھی آگئی۔ 

نواز شریف اپنے دور حکومت میں ایک مرحلے پر کالاباغ ڈیم بناناچاہتے تھے۔ سندھی پریس کے ایک وفد نے وقت کے وزیراطلاعات مشاہد حسین کو کالاباغ ڈیم  کے لئے راہ ہموار کرنے کی مہم کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ بعد میں جب جنرل مشرف نے کالاباغ ڈیم کے حق میں مہم کے خلاف بعض سندھی صحافیوں نے استعیفے دیئے۔ 

قومی مالیاتی ایواڈ اور پانی کی تقسیم، توانائی کے وسائل کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر مین اسٹریم میڈیا کے لیے قومی اشوز تھے جبکہ سندھی میڈیا نے ایک لکیر کہینچ کر خود کو الگ کیا، نوے کی دہائی سے لیکر دو ہزار تک یہ اشوز اس قدر میچوئر ہوچکے تھے جو سندھ کے لوگ مرنے مارنے کے لیے تیار ہوچکے تھے، یہ آگاہی اور سیاسی شعور انہیں سندھی میڈیا نے دیا۔ بحریہ ٹاؤن کا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔

ضیا مارشل لا کے بعد پہلی مرتبہ جب منتخب حکومت آئی، (یہ حکومت بینظیر بھٹو کی تھی) اس دور سے سندھی میڈیا کا ایک مزاحمتی کردار سامنے اٰیا۔  نئے رجحانات، تحریروں کے نئے فارمیٹ یہاں تک کہ خبروں کے لئے نئے موضوعات متعارف ہوئے۔ 

سندھی صحافت نے سماج کے کئی پہلوں کو اجاگر کیا، انیس سو نوے کی دہائی کے بعد غیرت کے نام پر قتل، جبری مشقت، جرگوں میں فیصلوں اور پسند کے شادی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے، اس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آنے لگیں، جس نے ریاست کو اس طرف بھی متوجہ کیا، روایتی سرداری اور جاگیرداری نظام کو ہلانے اور مزاحمت کی قیمت خون کا نذرانہ دے کربھی ادا کی، کندھ کوٹ سے لیکر میرپورخاص تک دس سے زائد صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

 حالات اور واقعات کچھ ایسے ہوئے کہ سندھی صحافت کا کردار معلوماتی کے ساتھ مزاحمتی بھی بن گیا، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں موثر سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں سندھی میڈیا نے سیاسی جماعتوں کا کردار اپنے سر لے لیا۔

ملک میں 2018 کے بعد جو صورتحال بنی، اس میں حکومت کی طرف سے سندھی میڈیا کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کسی زمانے میں محکمہ اطلاعات صبح سویرے سندھی میڈیا کی سمری بنا کر اسلام آباد بھیجتا تھا وہ بند کردی گئی۔ اس طرح سے اس گراس روٹ میڈیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ جو کچھ بھی لکھتا ہے حکومت کو اس کی پرواہ نہیں۔ 

یہ درست ہے کہ سندھی میڈیا میں حالات کا کبھی بھی بہتر نہیں رہے ہیں۔ اور نہ ہی کبھی سندھی میڈیا کے کسی ادارے میں ویج بورڈ کا اطلاق ہوا۔ نہ ہی اس پر عمل درآمد کے لئے سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔سوشل سیکیورٹی کی عدم موجودگی میں اخباری کارکنوں کی بقا کو مشکل بنائے ہوئے تھی۔ سوائے روزنامہ ہلال پاکستان کے۔ وہ بھی ایک زمانے میں کسی ادارے میں یونین نہیں رہی۔ سندھ میں موجود صحافیوں کی تنظیمیں سوائے حالات کار کو بہتر بنانے اور ملازمت کے شرائط کو چھوڑ کر باقی  معاملات خاص طور اظہار رائے کی آزادی وغیرہ پر متحرک رہی ہیں۔ 


اٹھارویں ترمیم کے بعد پریس اور میڈیا صوبائی اختیارات بن گئے۔ لیکن مختلف طریقوں سے وفاق نے اس کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ اب عملی طور پر ڈکلیئریشن حاصل کرنے سے لیکر اے بی سی، میڈیا ادارے کی مالکی تبدیل کرنے، میڈیا لسٹ، اشتہارات کو ریٹ مقرر کرنے اور یہاں تک کہ اخبارات کی روز مرہ کی بنیاد پر حاضری لگانے تک سینٹرلائیزڈ ہے۔ یہ تمام کام وفاقی محمکہ اطلاعات پی آئی ڈی کے ماتحت ہوتا ہے، جہاں پر کوئی صوبائی نمائندگی نہیں۔ پریس کونسل، رجسٹرار پریس یا کوئی اور میڈیا کو ریگیولیٹ کرنے والا ادارہ ہو، وہاں پر صوبائی نمائندگی موجود نہیں۔ جبکہ آئین کی رو سے خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں ہر صوبے کی نمائندگی ہونا لازم ہے۔ 

مارکیٹ کے اشتہارات یا نجی بزنیس کے لئے کبھی بھی سندھی میڈیا پسند کی میڈیا نہیں رہی۔ چائے کی پتی ہو یا نہانے کا صان اور شیمپو سندھی میڈیا میں اشتہارات نہیں دیئے جاتے۔اس طرح کی مصنوعات ایک طرح سے سندھ کو اپنی مارکیٹ ہی نہیں سمجھتی۔حالانکہ اعداوشمار بتاتے ہیں کہ مارکیٹ ہے۔اس وجہ سے سندھی اخبارات کا بزنیس ماڈل پرائیویٹ بزنیس کے بجائے سرکاری اشتہارات پر منحصر ہے۔

بحران کے سندھی میڈیا پر بھی براہ راست اثرات پڑے۔ سب سے پہلے روزنامہ سندھ ایکسپریس نے ڈاؤن سائیزنگ کی۔ یہاں تک کہ ایڈیٹر فاروق سومرو، نیوز ایڈیٹر، اور دیگر سنیئر اور پروفیشنل ایڈیٹوریل عملے کی چھٹی کردی گئی۔تقریبا 80 فیصد لوگوں کو فارغ کردیا گیا۔ نتیجے میں سندھی صحافیوں کی ایک کھیپ بیروزگار ہو گئی۔ 

اس بحران کے سندھی کے سب سے بڑے میڈٰیا گروپ کاوش اور کے ٹی این پر بھی اثر پڑا۔ اس کاوش گروپ کے اخباری اور تی وی چینل میں چھانٹی کی گئی۔ جس کے تحت اسلام آباد میں قربان بلوچ، حیدرآباد میں ناز سہتو، منظور میرانی عزیز سولنگی کو فارغ کردیا گیا۔ ان کی جگہ پر نئے اور کم اجرت پر کام کرنے والوں کو رکھا گیا۔ جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر میڈیا کا معیار متاثر ہوا۔ 

روزنامہ جیجل سے بھی صحافیوں کی ایک کھیپ کو فارغ کردیا گیا۔

سینئر صحافی منظور میرانی کا کہنا ہے کہ کسی سندھی ادارے میں ہیومن ریسورسز کا شعبہ سرے سے وجود ی نہیں رکھتا۔لہٰذا جب بحران آیا تو اس کو کس طرح منیج کیا جائے کوئی ادارہ س پوزیشن میں نہیں تھا۔ اشتہارات وغیرہ  کے پیسے روکے تو میڈیا مالکان کو نقصان نہیں ہوا۔ یہ دراصل نفعے میں نقصان تھا۔  لہٰذا پرانا منافعہ برابر کرنے کے لئے ڈاؤن سائیزنگ  اور دیگر پیسے کماے کے فارمولے اختیار کئے گئے۔ 

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سالہا سال تک کام کرنے والے صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ عام زبان میں اس صورتحال کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ سندھی میڈیا کا کام تمام ہوگیا۔ جس طرح کا بڑا بحران تھا، اس کو ہینڈل کرنے کا سرمایہ کاروں کو نہ تجربہ نہیں ہی مہارت تھا۔ نتیجے میں ایڈٰٹوریل پالیسی شعبہ اشتہارات کے ماتحت ہوگئی۔ 

ناز سہتو اس بحران کا ایک چھوٹا عنصر اس چیز کو بھی بتاتے ہیں کہ مختلف یونیورسٹیوں سے ماس کمیونیکیشن پڑھ کر نکلنے والے نوجوان میڈیا مارکیٹ میں اترے۔ جو ٹرینی اور انٹرنی کے طور پر انتہائی کم معاوضہ بعض صورت مین بغیر معاوضے کے کام کرنے لگے۔ ایسے میں میڈیا مالکان کو سینئر اور پروفیشنل اخباری کارکنوں / صحافیوں کی تنخواہیں بھاری محسوس ہونے لگی۔ بعض صورتوں میں ان کی طرف سے تنخواہوں میں اضافہ بھاری محسوس ہونے لگا۔ نتیجے میں تنخواہوں کے معاملے میں رائیٹ سائیزنگ اور ملازمین تعداد کے حوالیسے ڈاؤن سائیزنگ کی گئی۔ 

کرونا نے پرنٹ میڈیا کو اس طرح دھچکا دیا کہ اس کی سرکیولیشن کم ہوئی۔ کارخانے اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے اشتہارات پر اثر پڑا۔ اس کو سنبھالنے کے لئے جس ویزن، مہارت اور تجربے کی ضرورت تھی اس کا فقدان تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ادارتی یعنی ایڈیٹوریل کے فیصلے شعبہ اشتہارات کے ماتحت ہوگئے۔ یوں اظہار کی آزادی جو ایک طویل اور کٹھن جنگ اور جدوجہد کے ذریعے حاصل کی گئی تھی وہ کوڑیوں میں بکنے لگی۔  کسی تھانیدار کا مبارکباد کا اشتہار بھی شایع ہورہا ہے۔

ناز سہتو کا کہنا ہے کہ میڈیا یا اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے ہم ایک بار پھر ایوب دور یا اس کی بدترین شکل کے دور میں چلے گئے ہیں۔

منظور میرانی بتاتے ہیں کہ اس بحران کے بعد سندھی میڈیا دو قدم پیچھے چلی گئی۔ نئے ٹرینڈ والی میڈیا تھانیداروں اور تحصیلداروں کے مبارکباد کے اشتہارات شایع کرنے لگی۔ پالیسی سازی مکمل طور پر صحافیوں کے ہاتوح سے نکل کر مالکان کے ہاتھ میں چلی گئی۔ 

جولائی اور اگست 2021 میں محکمہ اطلاعات سندھ نے دو بڑے اخبارات ''روزنامہ عبرت''  اور ''روزنامہ پنہنجی اخبار'' سمیت درجنوں اخبارات کو اریگیولر قرار دے کر ایک ایک ماہ تک اشتہارات بند کر دیئے۔ اے پی این ایس نے معاملہ اٹھایا، تومعاملے کی تحقیقات کے بجائے زبانی معافی تلافی کرکے ختم کردیا گیا 

انفرمیشن کمیشن سندھ اور بلوچستان میں کام نہیں کر رہا۔ سندھ حکومت نے چار سال کے بعد ابھی اس کے بائی لاز بنائے ہیں۔  

چھوٹے اداروں میں تنخواہین کئی کئی ماہ دیر سے ملنے لگیں۔ اور ملازمت کی صورتحال غیر یقینی ہونے لگے تو ایسے اخبارات کے کارکنان دوسرے کام کرنے

 لگے۔ اس طرح صحافت پرکشش پروفیشن نہیں رہا، تو لوگ اس سے نکلنے لگے۔  ایک نیا سرمایہ کار میڈیا میں آیا۔ جس نے بزنیس کا نیا ماڈل متعارف کرایا۔ نیوز نیٹ ورک میں بطور رپورٹر کام کرنے والوں سے سال میں کم از کم دو مرتبہ یوم آزادی اور بنظیر بھٹو کی شہادت کے دن پر اشتہارات کے نام پر پیسے مقرر کئے گئے۔ بعض اخبارات میں یہ رقم ایک ضلعی رپورٹر پر دو سے پانچ لاکھ روپے تک بھی بتائی جاتی ہے۔

سندھی اخبارات میں چند ہی کالم نویسوں کو اعزازیہ دیا جاتا تھا۔ اس بحران کے نتیجے میں ان کا معاوضہ بھی بند کردیا گیا۔ بعض کالموں کوسخت گیرکہہ کر ان کی شاعت روک دی گئی۔ اور نصف درجن سے زائد کالم نویس کی تحریریں شایع کرنے سے منع کردیا گیا۔ 

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی اشفاق آزر کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں حکومت کی جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ اپنی جگہ پر لیکن سیاسی جماعتوں کو میڈیا کے اس مورچے کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر میڈیا ہاؤسز نے دانشمندی اور ویزن سے کام نہیں کیا تو اور صورتحال خراب ہو جائے گی۔ اظہار  رائے کی ٓزادی  سندھی میڈیا میں اس وجہ سے بھی زیادہ خطرے میں ہے کیونکہ اس کا  بزنیس ماڈل سرکاری اشتہارات ہیں۔

سندھی پریس کبھی ”ہاری  پریس“ تو کبھی  ”پاور ٓف پاورلیس پیپل‘ کہلائی۔ حالیہ بحران کی وجہ سے سندھی میڈیا میں نچلے درجے کی سوچ کے بزنیس ماڈل سامنے آرہے ہیں۔ جس میں پروفیشنلزم اور عوام دوست دور ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں وہ حکومت کی پالیسیوں کی بھی اس روایتیانداز سے نہین کر پائے گا۔ نتیجۃ سندھی میں اظہار رائے کی آزادی اور پروفیشنلزم مزید کم ہو جائے گی۔ سندھی میڈیا جو مزاحمت، انسانی حقوق، سندھ کے حقوق، روشن خیالی کی علامت تھا اب مفاہمت اور نچلے درجے کی کمرشلائیزیشن کی طرف برھ رہا ہے۔

صحافت اور جذبات

  صحافت اور جذبات 

 سہیل سانگی 
 امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی خبر لائیو نشر کرتے وقت مشہور امریکی اینکر والٹر کرونکائیٹ کے آنسو نکل آئے تھے، بعد میں انہوں نے کہا کہ اس طرح انکھوں میں آنسو آنا پروفیشنلزم  کی کم مائیگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ والٹر کرونکائیٹ امریکی صحافت کا معتبر نام تھا ان کے انتقال پر ٹائیم میگزین نے معروضیت کا پیشوا قراردیا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو ان کے اندر کے انسان کو ظاہر کر رہے تھے۔  اور اس کے ساتھ لاکھوں امریکیوں کے جذبات کی عکاسی کر رہے تھے۔ لیکن یہ صورتحال صحافت کے اندر چھپے ہوئے تضاد کو بھی عیاں کرتی ہے۔ وہ ہے ایک صحافی  کے  بطورانسان جذبات اور خبر کے معیار جن میں معروضیت لازمی عنصر ہے، اور صحافی کو غیر جانبدار یا لاتعلق  رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ صحافیوں سے یہ متوقع کی جاتی ہے کہ وہ خود جذبات سے دور رکھیں۔ 

اسٹیفن جوکس بورن ماؤتھ یونیورسٹی میں میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے پروفیسر، یورپ میں ڈارٹ سنٹر فار جرنلزم اینڈ ٹراما کے چیئر، اور رائٹرز کے لیے نیوز کے سابق عالمی سربراہ ہیں۔ انہوں نے صحافت اور جذبات نام سے کتاب لکھی ہے جس میں  ٖصحافت کی معروضیت پر نئے سرے سے نظر ڈالی گئی ہے۔ 

آج کی صحافت پر جب نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں ڈیجیٹل ماحول میں معروضیت کے پیراڈائم کے گرد شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر روایتی صحافت اور مواد کے درمیان حدیں دھندلی ہوتی جارہی ہیں۔  

براہ راست نشر ہونے والی دہشت گردی، منقسم سیاسی بحثوں اور جعلی خبروں کی دنیا میں، عصری صحافت کے بارے میں جذبات ہماری سمجھ میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ایسے میں صحافت اور جذبات کے درمیان پیچیدہ تعلق کو کیسے سمجھا سکتا ہے؟

اسٹیفن جوکس اس کتاب میں سرکردہ صحافیوں کے انٹرویوز سمیت، صحافت اور جذبات پر تنقیدی طور پر اس نئے متاثر کن میڈیا ماحول پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں، نہ صرف صحافت کی پریکٹس پر، بلکہ خود صحافیوں کے زندہ تجربے پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔

 

نظریے اور عمل کو ایک ساتھ لاتے ہوئے، اسٹیفن جوکس نے مندرجہ ذیل موضوعات کی چھان بین کی ہے۔

• صحافت میں معروضیت اور جذبات کی تاریخ، پری انٹرنیٹ سے ڈیجیٹل تک۔

• آج کے پاپولسٹ میڈیا کے منظر نامے میں ثقافت کا جذباتی ہونا۔

• صحافت اور سوشل میڈیا مواد کے درمیان حدود کا دھندلا پن۔

• جذباتی مواد کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کے پیشہ ورانہ طریقے۔

 

• تکلیف دہ کہانیوں کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کے لیے ذہنی صحت کے خطرات۔

• گرافک صارف کے تیار کردہ مواد کو سنبھالنے والے صحافیوں پر اثرات۔

 

 دیکھا جائے تو  آج کے انٹرایکٹو، باہم منسلک اور شراکت دار میڈیا ماحول میں، پہلے سے کہیں زیادہ جذباتی مواد تیار اور شیئر کیا جا رہا ہے۔ صحافت اور جذبات آپ کو اس کا احساس دلانے میں مدد کرتے ہیں، یہ بتاتے ہوئے کہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے جذبات کو کس طرح متحرک کیا جاتا ہے، اور صحافی خود جذباتی مواد کے ساتھ اور اس کے ذریعے کیسے کام کرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں میڈیا اور خاص طور پر خبروں میں معروضیت ایک اہم چلینج ہے۔ پاکستان میں آئے دن ایسی صورتحال کا ہمیں سامنا ہوتا ہے۔

خبروں کی معروضیت کے حوالے سے جائزہ لیتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ عمل خبر سازری ہے، یعنی واقعات اور حالات سے مواد اٹھا کر خبر کی تعمیر کی جاتی ہے۔ جب یہ عمل خبر سازی یا خبر کی تعمیر کا ہے تو اس میں موضوعیت یعنی سبجیکٹوٹی سے بچ کے رہنا خاصا مشکل ہے۔

 

 

کتاب کا پہلا باب اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ کس طرح معروضیت اور جذبات کے تصورات کو ثنائی مخالف کے طور پر دیکھا گیا اور کس طرح معیاری اینگلو امریکن معروضیت کے پیراڈائم میں جذبات کو ناقص صحافت یا سافٹ نیوز کے نام کے پر آگے بڑھایا گیا، باب تاریخی پس منظر کا احاطہ کرتا ہے اور بار بار ہونے والے واقعات اور سوشل میڈیا کی آمد سے قبل اینالاگ دور کے دوران 1960 اور 1970 کی نئی صحافت جیسے معروضیت کے نمونوں کے ابتدائی چیلنجز کی کھوج لگاتا ہے۔ 

باب دوم صحافت اور پوسٹ ٹروتھ سوسائٹی، میں جذبات کا عروج، حالیہ تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے جہاں ڈیجیٹل ماحول میں معروضیت کے پیراڈائم کے گرد شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر روایتی صحافت اور مواد کے درمیان حدیں دھندلی ہوتی جارہی ہیں۔ یہ آج کے پاپولسٹ میڈیا کے منظر نامے میں جذبات کے عروج کو پیش کرتا ہے، اس کا تعلق "تھراپی کلچر"، "متاثر کرنے کی طرف"، اور خود نوشت صحافت کی ترقی سے لے کر سماجی دور سے وابستہ تکنیکی تبدیلیوں تک کے مختلف عوامل بیان کرتا ہے۔ میڈیا میں خبروں کی تیاری کے روایتی کاروباری ماڈلز میں رکاوٹ اور صارف کے تیار کردہ مواد کے وسیع استعمال کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جس میں اکثر خام، غیر ایڈٹ شدہ جذباتی مواد شامل ہوتا ہے۔ یہ باب مقبول ثقافت میں جذباتیت کے وسیع تر رجحانات کے خلاف ان پیش رفتوں کا سراغ لگاتا ہے، جو برطانیہ میں 1980 کی دہائی سے اچھی طرح سے قائم ہو چکا ہے، اور بعد میں 1997 میں شہزادی ڈیانا کی موت پر عوامی غم کے اظہار کے ساتھ کھیلا گیا۔ یہ باب نشریاتی خبروں کے عملی پہلو اور روایات کے عنصر پر بھی نظر ڈالتا ہے جو ثقافت کی جذباتیت کے حصے کے طور پر دہشت گردی اور قدرتی آفات سے متعلق کہانیوں کی کوریج میں داخل ہوا ہے۔

 

تیسرا باب صحافت کی پریکٹس اور اثرات کے بارے میں ہے۔ یہ باب صحافیوں کے متاثر کن طریقوں اور طرز عمل کے زمروں (کیٹیگریز )کی نشاندہی کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے، خاص طور پر تکلیف دہ خبروں کی کوریج پر توجہ مرکوز کراتا ہے۔ ان میں 1996 میں ڈن بلین اسکاٹ لینڈ میں پرائمری اسکول کے بچوں کی فائرنگ، اور اس طرح کے انٹرنیٹ سے پہلے کے دور  کےکئی واقعات شامل ہیں۔ بتاتا ہے کہ کس طرح سے شام کے تنازعے سے لے کر لندن اور پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں تک- سوشل میڈیا پر عصری کہانیوں کا غلبہ  رہا ہے۔

یہ باب اہم جذباتی رویوں کی نشاندہی کرتا ہے، جو کہ "سرد لاتعلقی" cool detachment  اور "آٹو پائلٹ" بن گئے ہیں۔ اس  باب میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ کس طرح لاتعلقی متعدد کردار ادا کر سکتی ہے – یہ بھی بتاتا ہے کہ پیشہ ورانہ صحافت سے وابستہ رویے کو بظاہر اظہار کرنے کے عملی ٹول کے طور پر 'اسٹوری حاصل کرنے' اور تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اور تکلیف دہ واقعات کو کور کیے جانے کے خلاف دفاعی طریقہ کار کے طور پر اخیتار کیا جاتا ہے۔

 

چوتھا باب انٹرویو اور جذبات سے متعلق ہے صحافت کے طرز عمل کی متاثر کن جہت کو مزید دریافت کرتا ہے، اس بات پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ وسیع تر سیاق و سباق میں صحافی تنازعات، تباہی یا نجی غم میں پھنسے ہوئے لوگوں کے انٹرویو کیسے لیتے ہیں۔ باب انٹرویو کے مقصد کو ایک متاثر کن 'سائٹ ایمرجنس' کے طور پر جانچتا ہے جس میں صحافی۔ سکھائے گئے "لاتعلقی" کے پیشہ ورانہ اصولوں کے تحت ، صدمے کے شکار  لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتا ہے، جو لاتعلقی detachment کے علاوہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ استدلال دیتا ہے کہ صحافی تجربے اور خود کی عکاسی کے ذریعے انٹرویو لینے کے اپنے جذباتی عمل کو استوار کرتے ہیں جو بعض اوقات معروضیت کے اصولوں کے سخت حدود کو ایک طرف رکھتے ہیں اور زیادہ ہمدردانہ نقطہ نظر پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ متاثر کن مشق اکثر تھوڑی سی شعوری نگرانی کے ساتھ خود بخود ہوتی ہے۔

 

باب 5: ریوڑ کی جبلت ہے یہاں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے جسے بعض اوقات پیک جرنلزم کے نام سے جانا جاتا ہے . پیک جرنلزم خبروں کی رپورٹنگ کا وہ طریقہ ہے جس میں مختلف خبر رساں اداروں کے رپورٹرز ایک ہی کہانی کا احاطہ کرنے کے لیے تعاون کرتے ہیں، جس سے خبروں کی رپورٹنگ یکساں ہوتی ہے۔ یہ وہ مشق ہے جس کے تحت رپورٹرز اپنی کہانیوں کے لیے معلومات کے وہی ذرائع استعمال کرتے ہیں۔

 

 یہ صحافیوں کے درمیان اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ ایک بڑی بریکنگ نیوز اسٹوری کے منظر کو کور کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں یا ایک ساتھ جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جب ایک ہی وقت اور جگہ پر ایک ہی سورس ہے جس سے صحافیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد معلومات لے رہی ہوتی ہے۔ اس طرح کی صحافت کی طویل تاریخ ہے اور اسے Timothy Crouse کے 1972 Nixon-McGovern امریکی صدارتی مہم کے Boys on Bus میں مشہور کیا گیا تھا۔ اس باب میں متعدی بیماری اور ریوڑ کی جبلت کی ابتداء کی کھوج کی گئی ہے، جو جزوی طور پر مقابلے سے پہلے اسٹوری کو پیش کرنے کے لیے تجارتی دباؤ اور اسٹوری کو یاد نہ کرنے اور حریفوں کے ہاتھوں پکڑے جانے کے ذاتی دباؤ کی وجہ سے ہے۔ لیکن یہ اس متاثر کن جہت کی بھی تحقیقات کرتا ہے جو صحافیوں کے گروہوں کو ان طریقوں سے جوڑتا ہے جو غیر شعوری سطح پر ہوتے ہیں۔

 

چھٹا باب: صحافت اور صدمے، ان صحافیوں کے ممکنہ صدموں پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو وہ نیوز روم میں فائل کردہ یا مواد میں مشکل خبروں کو ہینڈل کرتے وقت سامنے آتے ہیں، دماغی صحت کے خطرات، اور ان کو کم کرنے کے اقدامات۔ یہ باب ایک لحاظ سے حالات کار کے اہم موضوع سے متعلق ہے۔

 یہ صحافیوں کے ساتھ ذاتی انٹرویوز اور ڈارٹ سنٹر آف جرنلزم اینڈ ٹراما کے ذریعہ تیار کردہ بہترین طریقوں پر مبنی ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کو کس طرح مختلف مصائب، تکلیف دہ تناؤ اور مکمل طور پر بعد از صدمے کے تناؤ کی خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس باب میں خاموشی یا بدنظمی کے کلچر کو بھی دریافت کیا گیا ہے جو ذہنی صحت کے موضوع پر لٹکا ہوا ہے اور یہ کہ کس طرح صحافت کی مردانگی نوعیت بتدریج ایک وسیع تر تفہیم اور صدمے کے بارے میں زیادہ کھلی بحث کا راستہ دے رہی ہے۔

 

باب 7: صحافیوں اور صارف کا پیدا کیا ہوامواد : یہ باب سوشل میڈیا ہبس Hubs پر ایک خاص قسم کے صارف کے تیار کردہ مواد کو ہینڈل کرنے والے صحافیوں پر اثر انگیز اثرات کی کھوج کرتے ہوئے جسے ڈیجیٹل فرنٹ لائن کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں پرتشدد پروپیگنڈہ تصاویر پر توجہ دی گئی ہے جو اکثر ISIS کے زیر اثر بناکر بھیجی جاتی ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات سے نکلتی ہیں ۔ انہیں جنہیں دہشت گرد سیلفیز کہا جاتا ہے۔

اس باب میں پرانی نسبتاً نایاب آئیکونک اینالاگ تصویروں کے درمیان فرق کو دریافت کیا گیا ہے  جس میں آج کا وسیع ڈیجیٹل مواد شامل ہے۔ انٹرویوز کے ذریعے یہ ان صحافیوں کے زندہ تجربے کی کھوج کرتا ہے جو گرافک صارف کے تیار کردہ مواد پر کام کرتے ہیں اور وہ کس طرح سانحہ اور مصائب کی تصاویر سے نمٹنے کی کوشش کرتے ہیں، جنہیں اکثر پروپیگنڈا کے طور پر ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ اس باب میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خبر رساں اداروں نے اس مسئلے پر کس طرح کا رد عمل ظاہر کیا ہے اور اس طرح کے مواد سے نمٹنے کے لیے اب بہترین طرز عمل سامنے آ رہے ہیں۔

 

اختتامی باب صحافتی ثقافت میں تبدیلیوں کو سمیٹتا ہے۔ اور پیشہ ورانہ نظریات جو جذبات کے عروج کے ساتھ ہیں اور جن کی وجہ سے آج کا ’متاثر میڈیا منظر نامہ‘ کہا جا سکتا ہے۔

یہ استدلال کرتا ہے کہ جب صحافیوں کے نظریات اور اقدار - بشمول معروضیت کے مقدس اصول - نمایاں طور پر مستحکم ہیں، ان کا اصل عمل آج کی خبروں میں زیادہ جذباتی مواد کو شامل کرنے کے لیے تبدیل ہو رہا ہے۔ نتیجتاً صحافت کے میدان میں تضادات اور تناؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بہت سے صحافی اب بھی جن چیزوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ماحول میں ہے یہ کتاب صحافی کی ذہنیت کو بہتر بنانے کی اپیل کرتی ہے جو جذبات اور صحافت کی بہتر تفہیم کا باعث بن سکتی ہے۔

 

مارچ 2022 میں کراچی پریس کلب کے زیر اہتمام  -

  بر نشست میں پڑھا گیا Emotion and Journalism by Stephen Jukes  

by Sohail Sangi