Friday, July 14, 2023

سندھی میڈیا مزاحمت، چلینجز اور آپشنز۔۔۔۔

 سندھی میڈیا مزاحمت، چلینجز اور آپشنز۔۔۔۔

 اردو یونیورسٹی کراچی کے زیر اہتمام اپریل 2014 میں منعقدہ کانفرنس میں یہ مقالہ پڑھا گیا
سہیل سانگی

 ان دنوں سندھ کے کئی شہروں میں الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی چینلز ) کی نشریات بند ہے ۔  اس کی وجہ وہ رویہ ہے جو آج سے تقریبا تین دہائی پہلے مین اسٹریم میڈیا نے سندھ کے لوگوں اور سندھ کے اشوز کے ساتھ روا رکھا تھا۔ حالیہ  
بائیکاٹ کی وجہ جیئے سندھ قومی محاذ نامی قوم پرست جماعت کا فریڈم مارچ بنا جو تئیس مارچ کو ملک کے میڈیا سٹی کراچی میں نکالا گیا، جو اس مین اسٹریم میڈیا میں جگہ حاصل نہیں کرسکا ۔

یہ قوم پرست کارکن  پوری دنیا اور پاکستان کی ریاست کی توجہ سندھ کی محرومیوں اور مسائل کی منبذول کرانا چاہتے تھے، لیکن بعض دباؤ اور نامعلوم اسباب کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ سندھ کے ایک بڑے حلقے نے مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے کو ” غیر ذمہ دارانہ“ اور تعصب پرستانہ قرار دیا، جس میں سماجی ویب سائیٹوں پر تبصروں نے بھی اہم کردار ادا کیا اور اس طرح ان چینلز کا غیر اعلانیہ بائکاٹ کردیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں جب محرومیوں کا لاوا پک رہا تھا اس وقت بھی مین اسٹریم میڈیا کا کچھ ایسا ہی کردار نظر آیا تھا، لائبریروں میں موجود اخبارات کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ وہاں کوئی تحریک جاری تھی یا لوگ اس قدر بیزار ہوچکے تھے کہ انہیں الگ وطن کا نعرہ لگانا پڑا، اس رویے کی دوسری مثال آج بلوچستان میں نظر آتی ہے جس کے ساتھ بھی یہ رویہ روا رکھا گیا ہے، لیکن جب بات سندھ کی آتی ہے تو صورتحال قدرے مختلف ہوجاتی ہے کیونکہ یہاں سندھی زبان تحریری شکل  میں موجود ہے اور اس کا متحرک میڈیا تینوں صنفوں آڈیو ، ویڈیو اور ٹیکسٹ کی صورت میں رائج ہے۔سوشل میڈیا پر ایکٹوازم کے علاوہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ میں آج بھی الیکٹرانک میڈیا تفریح جبکہ پرنٹ میڈیا معلومات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے مطابق موجودہ وقت 23 سندھی اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ پاکستان پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل142 باقاعدہ اخبارات ہیں۔ یعنی کل اخبارات کا 16فیصد سندھی اخبارات ہیں، اس طرح سندھ کی دیہی اور شہری آبادی ملاکر پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا چوبیس فیصد بنتی ہے۔

اگرچہ سندھ میں اردو، سندھی اور انگریزی اہم زبانیں ہیں جن میں اخبارات نکلتے ہیں۔اردو میڈیا  کنزرویٹو، مرکزیت پسند، قصے کہانیوں والی، رجعت پسند اور سنسی پھیلانے والی ، جبکہ انگریزی ایلیٹ طبقے کی میڈیا تصور کی جاتی ہے جو زیادہ لبرل اور پروفیشنل ہے۔

ڈسٹورشن
 سندھ کے سیاسی شعور کا اظہار تو ون یونٹ میں سامنے آچکا تھا، لیکن صحافت اس کا مظہر نہیں بن سکی، ون یونٹ کے قیام کے وقت سندھی اخبارات نے احتجاجی اداریے لکھے لیکن بعد میں مارشل لا کی سخت پابندیوں کے باعث موثرکردار ادا نہیں کرسکی۔ اس کی جگہ ادب اور ادیبوں نے لی۔ ادبی جرائد یا پھر خفیہ پمفلیٹوں کے ذریعے اظہار اور احتجاج کیا جاتا رہا۔
  
 پچاس کی دہائی کے آخر میں مسلم لیگ کے رہنما قاضی محمد اکبر نے نامور ادیب محمد عثمان ڈیپلائی سے روزنامہ عبرت خریدا تو سیاسی مقاصد کے لیے تھا، لیکن ان کی سربراہی میں عبرت وہ پہلا سندھی اخبار تھا جو کمرشل بنیادوں پر استوار کیا گیا۔

ساٹھ کی دہائی کے آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روزنامہ ہلال پاکستان خریدا لیا اور اس کو بطور پارٹی آرگن شایع کیا ۔انتخابات میں کامیابی کے بعد اخبار کو حیدرآباد سے کراچی منتقل کیا گیا اور اس کی ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ممتاز سندھی دانشور سراج الحق میمن کو ایڈیٹر تعینات کیا گیا۔

مذہبی ریڈیکل اظہار ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جماعت اسلامی کے بعض اخبارات کے ذریعہ ہوا۔ جماعت اسلامی اپنے ماہوار میگزین تو نکالتی رہی لیکن اس فکر کے اخبار کی سندھ میں گنجائش نہیں تھی۔ البتہ مہران اخبار جو کہ پیر پاگارا کی زیرسرپرستی شایع ہوتا تھا، اس کے ایڈیٹر سردار علی شاہ کے انتقال کے بعد یہ اخبار بھی ایک حد تک لبرل ہوگیا۔

عبرت، آفتاب ، ہلال پاکستان قوم پرستانہ اور ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ چلتے رہے۔ ہلال پاکستان اپنی پالیسی اور فکر میں حکومت کا حامی ہونے کے باوجود ترقی پسندانہ سوچ کا حامی تھا۔ جو رنگ بعد میں ہلکا پڑتا گیا ۔

اسی کی دہائی میں بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی نے سندھ کے ہر گلی اور گاؤں میں ایک تحرک پیدا کیا، جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر گئیں لیکن اس تحریک کی کوریج مین اسٹریم میڈیا میں کراچی تک محدود رہی، جو سندھ میں سرگرمی اور فکر پیدا ہوا اس وقت کے سندھی اخبارات اس کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

سندھی میڈیا میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب سیاسی کارکن صحافت میں شامل ہوئے، یہ لوگ بائیں بازو کی تحریکوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا فکری اور سیاسی رجحان اور جدوجہد اسٹبلشمنٹ یا بالائی طبقوں کے خلاف رہی تھی۔ یوں ایک نئی سندھی صحافت نے جنم لیا۔  لہٰذا سندھ کے ترقی پسند کارکنوں نے عوامی آواز کا اجراءکیا۔

میرے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ میں اس مزاحمتی صحافت کا بانی بنا۔ جبکہ فقیر محمد لاشاری مرحوم، انور پیرزادو، بدر ابڑو، عبدالرحمان نقاش نے بھی مزاحمتی صحافت میں اپنا رول ادا کیا۔ یہ اور بات ہے کہ بعض سرکاری ادارے اور ان کے حاشیہ بردار اس مزاحمتی صحافت اور صحافیوں کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 اس مزاحمتی صحافت کے نقش قدم پر بعد میں جاگو (ایڈیٹر فقیر محمد لاشاری)، پکار (ایڈیٹر بدر ابڑو)، کاوش (ایڈیٹر علی قاضی) ، برسات (ایڈیٹر شیخ ایاز اور یوسف شاہین)بھی جاری ہوئے۔ عوامی آواز کی انتظامیہ نے موقعہ پرستی اور مالی لالچ کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے  وہ اپنی پوزیشن کھو بیٹھی۔ جبکہ کاوش نے اس آئیڈیا کو پالش کیا اور فنشنگ کی تو سندھی کا سب سے بڑا اخبار بن گیا۔

قومی مالیاتی ایواڈ اور پانی کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر مین اسٹریم میڈیا کے لیے قومی اشوز تھے جبکہ سندھی میڈیا نے ایک لکیر کہینچ کر خود کو الگ کیا، نوے کی دہائی سے لیکر دو ہزار تک یہ اشوز اس قدر میچوئر ہوچکے تھے جو سندھ کے لوگ مرنے مارنے کے لیے تیار ہوچکے تھے، یہ آگاہی اور سیاسی شعور انہیں سندھی میڈیا نے دیا۔

نوے کی دہائی میں اسٹبلشمنٹ کی سوچ کو سندھی معاشرے میں پھیلانے کے لیے الوحید اخبار نکالا گیا۔ جس کے لیے سندھ میں یہ بات عام تھی کہ یہ ایجنسیوں کا اخبار ہے، لیکن تمام تر مالی وسائل اور اطلاعاتی مراکز تک رسائی کے باوجود یہ اخبار بھی نہیں چل سکا۔ اسی طرح بعض غیر سندھی اداروں نے بھی سندھی میں اخبارات نکالنے کے تجربے کیے، جن میں سے تقریبا تمام ہی کو مالی نقصان اٹھانا پڑا، اس کی وجہ مالکان اور قاری کے مزاج اور سوچ میں ایک واضح فرق تھا۔

پنجاب کے ایک بڑے میڈیا گروپ نے کالاباغ ڈیم کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے سندھی میں اخبار کا اجرا کیا، لیکن اس کو وہ پذیرائی نہیں ملی اور جب جنرل مشرف نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے اشتہاری مہم چلائی تو اس سندھی اخبار کے نوجوان مستعفی ہوگئے۔

سندھی صحافت نے سماج کے کئی پہلوں کو اجاگر کیا، انیس سو نوے کی دہائی کے بعد غیرت کے نام پر قتل، جبری مشقت، جرگوں میں فیصلوں اور پسند کے شادی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے، اس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آنے لگیں، جس نے ریاست کو اس طرف بھی متوجہ کیا، روایتی سرداری اور جاگیرداری نظام کو ہلانے اور مزاحمت کی قیمت خون سے بھی ادا کی گئی، کندھ کوٹ سے لیکر میرپورخاص تک آٹھ سے زائد صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

 حالات اور واقعات کچھ ایسے ہوئے کہ سندھی صحافت کا کردار معلوماتی کے ساتھ مزاحمتی بھی بن گیا، اس طرح اس نے سیاسی جماعتوں کا کردار اپنے سر لے لیا، جو بعض جماعتوں کو پسند نہیں آیا، بعد میں بعض سیاسی جماعتوں نے اخبارات میں اپنے کارکن بھرتی کرانے کی کوشش کی، لیکن انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ بعض قومپرست جماعتوں نے تشدد کا راستہ بھی اپنایا اور یوں اخبارات کے بنڈل جلانا کا عمل شروع ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھی میڈیا کے تعلقات کبھی کھٹے میٹھے تو کبھی تلخ رہتے ہیں، پیپلز پارٹی اپوزیشن میں سندھی صحافت  کو اپنا محبوب پریس اور اقتدار میں ولن سمجھتی ہے۔ حالیہ دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سندھ کے وزیر اطلاعات کبھی بھی سندھی چینل پر نہیں آتے۔

ہر وفاقی حکومت کا بھی سندھی میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو ہوں یا، یوسف رضا گیلانی یا میاں نواز شریف، ایوان صدر میں جنرل مشرف ہوں، آصف علی زرداری یا ممنون حسین سندھی پریس سے الگ ملاقات کرتے ہیں، لیکن ان کی عملی اہمیت کے انکاری ہوتے ہیں۔

چیلینجز

سنہ 2000 کے بعد سندھی صحافت میں آنے والے نوجوان سیاسی تربیت اور ادبی پس منظر سے خالی ہیں، وہ سندھی صحافت جس نے دو دہائی قبل اسٹیٹسکو کو چئلینج کر کے ایک نئی شناخت بنائی تھی اب انحطاط کا شکار ہے۔ جس صحافی نے مقامی سردار، وڈیرے، سیاستداں اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کو چیلینج کیا تھا، اب اس کے حاشیہ بردار نظر آتے ہیں۔

صحافت کی باضابطہ تعلیم کے اداروں سے بھی جو لوگ اس شعبے میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ان کے لیے صحافت ایک گلیمر کی دنیا ہے جس میں وہ کسی سیاسی یا سماجی تبدیلی کے بجائے خود نمائی اور خود پسندی کی سوچ رکھتے ہیں۔
میڈیا کے اداروں کی شکایت اپنی جگہ پر ہے کہ تعلیمی اداروں سے صحافت کی تعلیم حاصل کرکے آنے والے اکثر نوجوان ان کے کسی کام کے نہیں ۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ اکثر سندھی اخبارات کے مدیر  ورکنگ جرنلسٹ نہیں ہیں۔

 وہ سوچ اور فکر جو پہلے بائیں بازو کے زیر اثر یا وابستہ تھی اب وہ دباؤ، خوف ، لالچ یا پھر ترقی پسندانہ فکر کے پیروکار نوجوانوں کی میدان میں عدم موجودگی کے باعث سینٹرل رائیٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس کی مثال پچھلے دنوں لاڑکانہ میں دھرم شالا کو نذر آتش کرنے، نیو دمبالو میں تین ہندو نوجوانوں کی گرفتاری اور حیدرآباد میں کالی مندر کے واقعات ہیں، جس کی کوریج غیر واضح اور مسخ کردی گئی ۔ یہ رویہ سندھی پریس کا پہلے کبھی بھی نہ تھا۔ ان واقعات پر سندھی میڈیا کے عمل کو ایک قدم آگے بڑھنے کے بجائے دو قدم پیچھے جانے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

اردو میڈیم میڈیا سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے سندھ کے اشوز کو رپورٹ کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی مفاد۔ یہی وجہ ہے کہ انگلیوں پر گننے کے برابر سندھی لوگ اس میڈیا میں لیے گئے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں سندھی کالم نویس۔ قابل حیرت اور افسوس امر یہ بھی ہے کہ نیوز چینلز پر کسی بھی ٹاک شو کا کوئی سندھی میزبان نہیں۔

اس صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات اور سوچ کے تبادلہ کے بجائے ایک ایسے مرکزیت پسندی کے تنگ نظر چشمے سے دیکھتی ہے جس کو نام تو قومی مفاد کا نام دیا جارہا ہے لیکن عملا اس کے برعکس ہے۔ یوں مین اسٹریم میڈیا لوگوں کو جوڑنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔

اطلاعات کا خلاء
پاکستان میں مجموعی طور پر میڈیا کی معلومات تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے، اگر کوئی معلومات ملتی بھی ہے تو وہ یک طرفہ ہوتی ہے یا پھر manipulated۔ اس ضمن میں سندھی میڈیا کے ساتھ ایک اور المیہ  بھی ہے۔ وہ ہے معلومات اور ان کے ذرائع اور اداروں تک رسائی۔
سندھ اقتدار کے تکوں میں اکثر غیر موجود ہوتا ہے،  یہی صورتحال مختلف اداروں کی بھی ہے، لہٰذا ان اداروں تک سندھی میڈیا کی رسائی خاصی مشکل رہتی ہے۔ یہ انیس نوے کے عشرے کی بات ہے کہ سندھی اخبارات نےاسلام آباد میں اپنے بیورو آفیسز قائم کئے۔ روزنامہ کاوش واحد اخبار ہے جس کے نمائندے ملک کے باقی تین دارالحکومتوں میں بھی ہیں۔

مالی حالت
سندھی اخبارات کا انحصار سرکاری اشتہارات پر زیادہ ہے، یہ بات حکومت وقت بخوبی جانتی ہے، اس لیے اشتہارات کے اجرا سے لیکر ادائیگی تک کبھی بلواسطہ تو کبھی بلا واسطہ دباؤ ڈال کر اپنی تشہیر حاصل کرتی رہی ہے، ایسا بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ کئی اخبارات کو سبق سکھانے کے لیے ان کے اشتہارات بند کیئے گئے۔

کراچی، نوری آباد، حیدرآباد اور کوٹڑی میں کئی صنعتیں اور چھوٹے بڑے کارخانے موجود ہیں لیکن سندھی میڈیا ان سے بہت کم ہی اشتہار حاصل کرتے ہیں، اسی وجہ سے کچھ اخبارات تو یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا سندھی بچے چاکلیٹ، ٹافی، یا آئسکریم نہیں کھاتے، کیا سندھی صابن، شیمپو، سگریٹ استعمال نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ ان کی دلیل ہوتی ہے کہ جب خریدار موجود ہے تو پھر اس میڈیم کو کیوں یہ اشتہار ملتا ہے جو وہ پڑہتے یا دیکھتے نہیں۔

صحافی اور میڈیا ورکرز

پریس قوانین خاص طور پر کارکنوں کی ملازمت، حالات کار، معاوضے وغیرہ کے حوالے سے سندھ پرنٹ میڈیا میں عمل درآمد خال خال ہے۔ کراچی کے برعکس ان کی آواز بھی اتنے موثر نہیں، اسلام آباد اور کراچی کی صحافتی تنظیمیں حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں کے صحافی مانتی ہی نہیں اور ان کی پیشورانہ صحافتی تنظیموں میں کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔
باقی تینوں صوبوں میں صحافتی تنظیموں کی صوبائی باڈیز ہیں لیکن سندھ واحد صوبہ ہے جہاں کراچی یونین آف جرنلسٹس ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ترقی پسندی کی دعویٰ کرنے والے دوست بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔



No comments: