Showing posts with label Journalism. Show all posts
Showing posts with label Journalism. Show all posts

Friday, July 14, 2023

سندھی میڈیا مزاحمت، چلینجز اور آپشنز۔۔۔۔

 سندھی میڈیا مزاحمت، چلینجز اور آپشنز۔۔۔۔

 اردو یونیورسٹی کراچی کے زیر اہتمام اپریل 2014 میں منعقدہ کانفرنس میں یہ مقالہ پڑھا گیا
سہیل سانگی

 ان دنوں سندھ کے کئی شہروں میں الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی چینلز ) کی نشریات بند ہے ۔  اس کی وجہ وہ رویہ ہے جو آج سے تقریبا تین دہائی پہلے مین اسٹریم میڈیا نے سندھ کے لوگوں اور سندھ کے اشوز کے ساتھ روا رکھا تھا۔ حالیہ  
بائیکاٹ کی وجہ جیئے سندھ قومی محاذ نامی قوم پرست جماعت کا فریڈم مارچ بنا جو تئیس مارچ کو ملک کے میڈیا سٹی کراچی میں نکالا گیا، جو اس مین اسٹریم میڈیا میں جگہ حاصل نہیں کرسکا ۔

یہ قوم پرست کارکن  پوری دنیا اور پاکستان کی ریاست کی توجہ سندھ کی محرومیوں اور مسائل کی منبذول کرانا چاہتے تھے، لیکن بعض دباؤ اور نامعلوم اسباب کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ سندھ کے ایک بڑے حلقے نے مین اسٹریم میڈیا کے اس رویے کو ” غیر ذمہ دارانہ“ اور تعصب پرستانہ قرار دیا، جس میں سماجی ویب سائیٹوں پر تبصروں نے بھی اہم کردار ادا کیا اور اس طرح ان چینلز کا غیر اعلانیہ بائکاٹ کردیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں جب محرومیوں کا لاوا پک رہا تھا اس وقت بھی مین اسٹریم میڈیا کا کچھ ایسا ہی کردار نظر آیا تھا، لائبریروں میں موجود اخبارات کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ وہاں کوئی تحریک جاری تھی یا لوگ اس قدر بیزار ہوچکے تھے کہ انہیں الگ وطن کا نعرہ لگانا پڑا، اس رویے کی دوسری مثال آج بلوچستان میں نظر آتی ہے جس کے ساتھ بھی یہ رویہ روا رکھا گیا ہے، لیکن جب بات سندھ کی آتی ہے تو صورتحال قدرے مختلف ہوجاتی ہے کیونکہ یہاں سندھی زبان تحریری شکل  میں موجود ہے اور اس کا متحرک میڈیا تینوں صنفوں آڈیو ، ویڈیو اور ٹیکسٹ کی صورت میں رائج ہے۔سوشل میڈیا پر ایکٹوازم کے علاوہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ میں آج بھی الیکٹرانک میڈیا تفریح جبکہ پرنٹ میڈیا معلومات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے مطابق موجودہ وقت 23 سندھی اخبارات شایع ہوتے ہیں۔ پاکستان پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کل142 باقاعدہ اخبارات ہیں۔ یعنی کل اخبارات کا 16فیصد سندھی اخبارات ہیں، اس طرح سندھ کی دیہی اور شہری آبادی ملاکر پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا چوبیس فیصد بنتی ہے۔

اگرچہ سندھ میں اردو، سندھی اور انگریزی اہم زبانیں ہیں جن میں اخبارات نکلتے ہیں۔اردو میڈیا  کنزرویٹو، مرکزیت پسند، قصے کہانیوں والی، رجعت پسند اور سنسی پھیلانے والی ، جبکہ انگریزی ایلیٹ طبقے کی میڈیا تصور کی جاتی ہے جو زیادہ لبرل اور پروفیشنل ہے۔

ڈسٹورشن
 سندھ کے سیاسی شعور کا اظہار تو ون یونٹ میں سامنے آچکا تھا، لیکن صحافت اس کا مظہر نہیں بن سکی، ون یونٹ کے قیام کے وقت سندھی اخبارات نے احتجاجی اداریے لکھے لیکن بعد میں مارشل لا کی سخت پابندیوں کے باعث موثرکردار ادا نہیں کرسکی۔ اس کی جگہ ادب اور ادیبوں نے لی۔ ادبی جرائد یا پھر خفیہ پمفلیٹوں کے ذریعے اظہار اور احتجاج کیا جاتا رہا۔
  
 پچاس کی دہائی کے آخر میں مسلم لیگ کے رہنما قاضی محمد اکبر نے نامور ادیب محمد عثمان ڈیپلائی سے روزنامہ عبرت خریدا تو سیاسی مقاصد کے لیے تھا، لیکن ان کی سربراہی میں عبرت وہ پہلا سندھی اخبار تھا جو کمرشل بنیادوں پر استوار کیا گیا۔

ساٹھ کی دہائی کے آخر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے روزنامہ ہلال پاکستان خریدا لیا اور اس کو بطور پارٹی آرگن شایع کیا ۔انتخابات میں کامیابی کے بعد اخبار کو حیدرآباد سے کراچی منتقل کیا گیا اور اس کی ٹیکنالوجی میں جدت کے ساتھ ممتاز سندھی دانشور سراج الحق میمن کو ایڈیٹر تعینات کیا گیا۔

مذہبی ریڈیکل اظہار ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جماعت اسلامی کے بعض اخبارات کے ذریعہ ہوا۔ جماعت اسلامی اپنے ماہوار میگزین تو نکالتی رہی لیکن اس فکر کے اخبار کی سندھ میں گنجائش نہیں تھی۔ البتہ مہران اخبار جو کہ پیر پاگارا کی زیرسرپرستی شایع ہوتا تھا، اس کے ایڈیٹر سردار علی شاہ کے انتقال کے بعد یہ اخبار بھی ایک حد تک لبرل ہوگیا۔

عبرت، آفتاب ، ہلال پاکستان قوم پرستانہ اور ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ چلتے رہے۔ ہلال پاکستان اپنی پالیسی اور فکر میں حکومت کا حامی ہونے کے باوجود ترقی پسندانہ سوچ کا حامی تھا۔ جو رنگ بعد میں ہلکا پڑتا گیا ۔

اسی کی دہائی میں بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی نے سندھ کے ہر گلی اور گاؤں میں ایک تحرک پیدا کیا، جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر گئیں لیکن اس تحریک کی کوریج مین اسٹریم میڈیا میں کراچی تک محدود رہی، جو سندھ میں سرگرمی اور فکر پیدا ہوا اس وقت کے سندھی اخبارات اس کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

سندھی میڈیا میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب سیاسی کارکن صحافت میں شامل ہوئے، یہ لوگ بائیں بازو کی تحریکوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا فکری اور سیاسی رجحان اور جدوجہد اسٹبلشمنٹ یا بالائی طبقوں کے خلاف رہی تھی۔ یوں ایک نئی سندھی صحافت نے جنم لیا۔  لہٰذا سندھ کے ترقی پسند کارکنوں نے عوامی آواز کا اجراءکیا۔

میرے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ میں اس مزاحمتی صحافت کا بانی بنا۔ جبکہ فقیر محمد لاشاری مرحوم، انور پیرزادو، بدر ابڑو، عبدالرحمان نقاش نے بھی مزاحمتی صحافت میں اپنا رول ادا کیا۔ یہ اور بات ہے کہ بعض سرکاری ادارے اور ان کے حاشیہ بردار اس مزاحمتی صحافت اور صحافیوں کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔

 اس مزاحمتی صحافت کے نقش قدم پر بعد میں جاگو (ایڈیٹر فقیر محمد لاشاری)، پکار (ایڈیٹر بدر ابڑو)، کاوش (ایڈیٹر علی قاضی) ، برسات (ایڈیٹر شیخ ایاز اور یوسف شاہین)بھی جاری ہوئے۔ عوامی آواز کی انتظامیہ نے موقعہ پرستی اور مالی لالچ کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے  وہ اپنی پوزیشن کھو بیٹھی۔ جبکہ کاوش نے اس آئیڈیا کو پالش کیا اور فنشنگ کی تو سندھی کا سب سے بڑا اخبار بن گیا۔

قومی مالیاتی ایواڈ اور پانی کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر مین اسٹریم میڈیا کے لیے قومی اشوز تھے جبکہ سندھی میڈیا نے ایک لکیر کہینچ کر خود کو الگ کیا، نوے کی دہائی سے لیکر دو ہزار تک یہ اشوز اس قدر میچوئر ہوچکے تھے جو سندھ کے لوگ مرنے مارنے کے لیے تیار ہوچکے تھے، یہ آگاہی اور سیاسی شعور انہیں سندھی میڈیا نے دیا۔

نوے کی دہائی میں اسٹبلشمنٹ کی سوچ کو سندھی معاشرے میں پھیلانے کے لیے الوحید اخبار نکالا گیا۔ جس کے لیے سندھ میں یہ بات عام تھی کہ یہ ایجنسیوں کا اخبار ہے، لیکن تمام تر مالی وسائل اور اطلاعاتی مراکز تک رسائی کے باوجود یہ اخبار بھی نہیں چل سکا۔ اسی طرح بعض غیر سندھی اداروں نے بھی سندھی میں اخبارات نکالنے کے تجربے کیے، جن میں سے تقریبا تمام ہی کو مالی نقصان اٹھانا پڑا، اس کی وجہ مالکان اور قاری کے مزاج اور سوچ میں ایک واضح فرق تھا۔

پنجاب کے ایک بڑے میڈیا گروپ نے کالاباغ ڈیم کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے سندھی میں اخبار کا اجرا کیا، لیکن اس کو وہ پذیرائی نہیں ملی اور جب جنرل مشرف نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے اشتہاری مہم چلائی تو اس سندھی اخبار کے نوجوان مستعفی ہوگئے۔

سندھی صحافت نے سماج کے کئی پہلوں کو اجاگر کیا، انیس سو نوے کی دہائی کے بعد غیرت کے نام پر قتل، جبری مشقت، جرگوں میں فیصلوں اور پسند کے شادی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے، اس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آنے لگیں، جس نے ریاست کو اس طرف بھی متوجہ کیا، روایتی سرداری اور جاگیرداری نظام کو ہلانے اور مزاحمت کی قیمت خون سے بھی ادا کی گئی، کندھ کوٹ سے لیکر میرپورخاص تک آٹھ سے زائد صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

 حالات اور واقعات کچھ ایسے ہوئے کہ سندھی صحافت کا کردار معلوماتی کے ساتھ مزاحمتی بھی بن گیا، اس طرح اس نے سیاسی جماعتوں کا کردار اپنے سر لے لیا، جو بعض جماعتوں کو پسند نہیں آیا، بعد میں بعض سیاسی جماعتوں نے اخبارات میں اپنے کارکن بھرتی کرانے کی کوشش کی، لیکن انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکی۔ بعض قومپرست جماعتوں نے تشدد کا راستہ بھی اپنایا اور یوں اخبارات کے بنڈل جلانا کا عمل شروع ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھی میڈیا کے تعلقات کبھی کھٹے میٹھے تو کبھی تلخ رہتے ہیں، پیپلز پارٹی اپوزیشن میں سندھی صحافت  کو اپنا محبوب پریس اور اقتدار میں ولن سمجھتی ہے۔ حالیہ دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سندھ کے وزیر اطلاعات کبھی بھی سندھی چینل پر نہیں آتے۔

ہر وفاقی حکومت کا بھی سندھی میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو ہوں یا، یوسف رضا گیلانی یا میاں نواز شریف، ایوان صدر میں جنرل مشرف ہوں، آصف علی زرداری یا ممنون حسین سندھی پریس سے الگ ملاقات کرتے ہیں، لیکن ان کی عملی اہمیت کے انکاری ہوتے ہیں۔

چیلینجز

سنہ 2000 کے بعد سندھی صحافت میں آنے والے نوجوان سیاسی تربیت اور ادبی پس منظر سے خالی ہیں، وہ سندھی صحافت جس نے دو دہائی قبل اسٹیٹسکو کو چئلینج کر کے ایک نئی شناخت بنائی تھی اب انحطاط کا شکار ہے۔ جس صحافی نے مقامی سردار، وڈیرے، سیاستداں اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کو چیلینج کیا تھا، اب اس کے حاشیہ بردار نظر آتے ہیں۔

صحافت کی باضابطہ تعلیم کے اداروں سے بھی جو لوگ اس شعبے میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں ان کے لیے صحافت ایک گلیمر کی دنیا ہے جس میں وہ کسی سیاسی یا سماجی تبدیلی کے بجائے خود نمائی اور خود پسندی کی سوچ رکھتے ہیں۔
میڈیا کے اداروں کی شکایت اپنی جگہ پر ہے کہ تعلیمی اداروں سے صحافت کی تعلیم حاصل کرکے آنے والے اکثر نوجوان ان کے کسی کام کے نہیں ۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ اکثر سندھی اخبارات کے مدیر  ورکنگ جرنلسٹ نہیں ہیں۔

 وہ سوچ اور فکر جو پہلے بائیں بازو کے زیر اثر یا وابستہ تھی اب وہ دباؤ، خوف ، لالچ یا پھر ترقی پسندانہ فکر کے پیروکار نوجوانوں کی میدان میں عدم موجودگی کے باعث سینٹرل رائیٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس کی مثال پچھلے دنوں لاڑکانہ میں دھرم شالا کو نذر آتش کرنے، نیو دمبالو میں تین ہندو نوجوانوں کی گرفتاری اور حیدرآباد میں کالی مندر کے واقعات ہیں، جس کی کوریج غیر واضح اور مسخ کردی گئی ۔ یہ رویہ سندھی پریس کا پہلے کبھی بھی نہ تھا۔ ان واقعات پر سندھی میڈیا کے عمل کو ایک قدم آگے بڑھنے کے بجائے دو قدم پیچھے جانے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔

اردو میڈیم میڈیا سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے سندھ کے اشوز کو رپورٹ کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی مفاد۔ یہی وجہ ہے کہ انگلیوں پر گننے کے برابر سندھی لوگ اس میڈیا میں لیے گئے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں سندھی کالم نویس۔ قابل حیرت اور افسوس امر یہ بھی ہے کہ نیوز چینلز پر کسی بھی ٹاک شو کا کوئی سندھی میزبان نہیں۔

اس صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا لوگوں کو ایک دوسرے کے خیالات اور سوچ کے تبادلہ کے بجائے ایک ایسے مرکزیت پسندی کے تنگ نظر چشمے سے دیکھتی ہے جس کو نام تو قومی مفاد کا نام دیا جارہا ہے لیکن عملا اس کے برعکس ہے۔ یوں مین اسٹریم میڈیا لوگوں کو جوڑنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور کر رہی ہے۔

اطلاعات کا خلاء
پاکستان میں مجموعی طور پر میڈیا کی معلومات تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے، اگر کوئی معلومات ملتی بھی ہے تو وہ یک طرفہ ہوتی ہے یا پھر manipulated۔ اس ضمن میں سندھی میڈیا کے ساتھ ایک اور المیہ  بھی ہے۔ وہ ہے معلومات اور ان کے ذرائع اور اداروں تک رسائی۔
سندھ اقتدار کے تکوں میں اکثر غیر موجود ہوتا ہے،  یہی صورتحال مختلف اداروں کی بھی ہے، لہٰذا ان اداروں تک سندھی میڈیا کی رسائی خاصی مشکل رہتی ہے۔ یہ انیس نوے کے عشرے کی بات ہے کہ سندھی اخبارات نےاسلام آباد میں اپنے بیورو آفیسز قائم کئے۔ روزنامہ کاوش واحد اخبار ہے جس کے نمائندے ملک کے باقی تین دارالحکومتوں میں بھی ہیں۔

مالی حالت
سندھی اخبارات کا انحصار سرکاری اشتہارات پر زیادہ ہے، یہ بات حکومت وقت بخوبی جانتی ہے، اس لیے اشتہارات کے اجرا سے لیکر ادائیگی تک کبھی بلواسطہ تو کبھی بلا واسطہ دباؤ ڈال کر اپنی تشہیر حاصل کرتی رہی ہے، ایسا بھی کئی بار ہوچکا ہے کہ کئی اخبارات کو سبق سکھانے کے لیے ان کے اشتہارات بند کیئے گئے۔

کراچی، نوری آباد، حیدرآباد اور کوٹڑی میں کئی صنعتیں اور چھوٹے بڑے کارخانے موجود ہیں لیکن سندھی میڈیا ان سے بہت کم ہی اشتہار حاصل کرتے ہیں، اسی وجہ سے کچھ اخبارات تو یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا سندھی بچے چاکلیٹ، ٹافی، یا آئسکریم نہیں کھاتے، کیا سندھی صابن، شیمپو، سگریٹ استعمال نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ ان کی دلیل ہوتی ہے کہ جب خریدار موجود ہے تو پھر اس میڈیم کو کیوں یہ اشتہار ملتا ہے جو وہ پڑہتے یا دیکھتے نہیں۔

صحافی اور میڈیا ورکرز

پریس قوانین خاص طور پر کارکنوں کی ملازمت، حالات کار، معاوضے وغیرہ کے حوالے سے سندھ پرنٹ میڈیا میں عمل درآمد خال خال ہے۔ کراچی کے برعکس ان کی آواز بھی اتنے موثر نہیں، اسلام آباد اور کراچی کی صحافتی تنظیمیں حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں کے صحافی مانتی ہی نہیں اور ان کی پیشورانہ صحافتی تنظیموں میں کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔
باقی تینوں صوبوں میں صحافتی تنظیموں کی صوبائی باڈیز ہیں لیکن سندھ واحد صوبہ ہے جہاں کراچی یونین آف جرنلسٹس ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ترقی پسندی کی دعویٰ کرنے والے دوست بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔



میڈیا بحران کے سندھی میڈیا پر اثرات

  میڈیا بحران کے سندھی میڈیا  پر  اثرات 

سہیل سانگی 

سندھی زبان تحریری شکل  میں موجود ہے اور اس کا متحرک میڈیا تینوں صنفوں آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ کی صورت میں رائج ہے۔ سوشل میڈیا پر ایکٹوازم اسکے علاوہ ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سندھ میں آج بھی الیکٹرانک میڈیا تفریح جبکہ پرنٹ میڈیا معلومات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اگرچہ سندھ میں اردو، سندھی اور انگریزی اہم زبانیں ہیں جن میں اخبارات نکلتے ہیں۔اردو میڈیا کنزرویٹو، مرکزیت پسند، قصے کہانیوں والی، رجعت پسند اور سنسی پھیلانے والی، جبکہ انگریزی ایلیٹ طبقے کی میڈیا تصور کی جاتی ہے جو زیادہ لبرل اور پروفیشنل ہے۔

پاکستان میں میڈیا پر گفتگو کرتے وقت سندھی میڈٰیا کا ذکر الگ سے کیا جانا چاہئے۔ سندھی میڈیا پاکستان کی واحد مقامی زبان ہے جس کا الگ سے اپنا میڈیا ہے۔ جو سندھ کی رائے عامہ پراسی طرح سے اثرانداز ہوتا ہے جس طرح مین اسٹریم کہلانے والے میڈٰیا کسی اور صوبے یا عالقے میں ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق اور سندھ کے اشوز پر متحرک کردارادا کرنے کی وجہ سے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاتا۔ دوسرے کسی صوبے میں اس کا اپنا اتنا مضبوط پریس نہیں جس طرح سے سندھی پریس ہے۔

پہلا سندھی اخبار  1858 میں شایع ہوا۔ سندھی پریس قیام پاکستان سے پہلے ہی ایک متحرک پریس کے طور پر تھا، یہ پریس مسلم ہو یا کانگریسی ہر دو صورتوں میں اپنا سیاسی کردار ادا کرتا رہا۔ سندھی پریس نے سندھ کی بامبئی سے علحدگی کی تحریک میں سرگرم حصہ لیا۔ 

قیام پاکستان کے بعد جب روزنامہ جنگ اور روزنامہ نوائے وقت ایک مخصوص بیانیے کے ساتھ آئے، تب سندھی پریس کے پاس پہلے سے اپنا بیانیہ تھا۔ وہ لسانی و ثقافتی شناخت اور حقوق کے لئے بھرپور آواز اٹھارہا تھا۔

اس میں صرف پروفیشنلزم نہیں بلکہ ایک سیاسی اور جذباتی پہلو بھی تھا۔  جب ون یونٹ بنا اور ایوب خان نے اپنی آمرانہ تعلیمی پالیسی کے ذریعے سندھی کو ذریعہ تعلیم  سے محروم کیا تو سندھی ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ پریس نے بھی بھرپور آواز اٹھائی۔ 

70 کے عشرے کے آغاز میں ذوالفقارعلی بھٹو دور میں ایک ہی جھٹکے میں ستر سے زائد سندھی جرائد اور کتابوں پر پابندی عائد کردی گئی۔

جنرل ضیاء کے مارشل لا کے دوران سندھی پریس کو زیادہ سختی بھگتنی پڑی، کیونکہ سندھ اور سندھی پڑھنے والے ذوالفقارعلی بھٹو کا براہ راست حلقہ تھا۔ ضیا نہیں چاہتے تھے کہ اس حلقے سے کوئی مضبوط آواز اٹھے۔ اس نقطے کی بنیاد پر خود بھٹو کی بھی خاص نظر تھی۔ ملک کی مین اسٹریم میڈیا کی طرح سندھی اخبارات کو بھی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا۔ 

ایوب خان اور بھٹو کے دور میں سندھی پریس میں سیاسی مواد کم اور سماجی، اور ثقافتی و ادبی مواد زیادہ نظر آتا ہے۔ 

اسی کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق  کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی نے سندھ کے ہر گلی اور گاؤں میں ایک تحرک پیدا کیا، جیلیں سیاسی کارکنوں سے بھر گئیں لیکن اس تحریک کی کوریج مین اسٹریم میڈیا میں کراچی تک محدود رہی، جو سندھ میں سرگرمی اور فکر پیدا ہوا اس وقت کے سندھی اخبارات اس کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

سندھی میڈیا میں فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب سیاسی کارکن صحافت میں شامل ہوئے، یہ لوگ بائیں بازو کی تحریکوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا فکری اور سیاسی رجحان اور جدوجہد اسٹبلشمنٹ یا بالائی طبقوں کے خلاف رہی تھی۔ یوں ایک نئی سندھی صحافت نے جنم لیا۔  

اس بڑی سیاسی مزاحمت کے بعد سندھی پریس نے باقاعدہ مزاحمتی کردار ادا کیا۔ بائیں بازو کے لوگ سندھی پریس میں داخل ہوئے۔ جس سے پریس ریڈکل ہو گیا اس میں سیاسی پہلو اور دانشوریت بھی آگئی۔ 

نواز شریف اپنے دور حکومت میں ایک مرحلے پر کالاباغ ڈیم بناناچاہتے تھے۔ سندھی پریس کے ایک وفد نے وقت کے وزیراطلاعات مشاہد حسین کو کالاباغ ڈیم  کے لئے راہ ہموار کرنے کی مہم کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ بعد میں جب جنرل مشرف نے کالاباغ ڈیم کے حق میں مہم کے خلاف بعض سندھی صحافیوں نے استعیفے دیئے۔ 

قومی مالیاتی ایواڈ اور پانی کی تقسیم، توانائی کے وسائل کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر مین اسٹریم میڈیا کے لیے قومی اشوز تھے جبکہ سندھی میڈیا نے ایک لکیر کہینچ کر خود کو الگ کیا، نوے کی دہائی سے لیکر دو ہزار تک یہ اشوز اس قدر میچوئر ہوچکے تھے جو سندھ کے لوگ مرنے مارنے کے لیے تیار ہوچکے تھے، یہ آگاہی اور سیاسی شعور انہیں سندھی میڈیا نے دیا۔ بحریہ ٹاؤن کا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔

ضیا مارشل لا کے بعد پہلی مرتبہ جب منتخب حکومت آئی، (یہ حکومت بینظیر بھٹو کی تھی) اس دور سے سندھی میڈیا کا ایک مزاحمتی کردار سامنے اٰیا۔  نئے رجحانات، تحریروں کے نئے فارمیٹ یہاں تک کہ خبروں کے لئے نئے موضوعات متعارف ہوئے۔ 

سندھی صحافت نے سماج کے کئی پہلوں کو اجاگر کیا، انیس سو نوے کی دہائی کے بعد غیرت کے نام پر قتل، جبری مشقت، جرگوں میں فیصلوں اور پسند کے شادی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے، اس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سامنے آنے لگیں، جس نے ریاست کو اس طرف بھی متوجہ کیا، روایتی سرداری اور جاگیرداری نظام کو ہلانے اور مزاحمت کی قیمت خون کا نذرانہ دے کربھی ادا کی، کندھ کوٹ سے لیکر میرپورخاص تک دس سے زائد صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

 حالات اور واقعات کچھ ایسے ہوئے کہ سندھی صحافت کا کردار معلوماتی کے ساتھ مزاحمتی بھی بن گیا، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں موثر سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں سندھی میڈیا نے سیاسی جماعتوں کا کردار اپنے سر لے لیا۔

ملک میں 2018 کے بعد جو صورتحال بنی، اس میں حکومت کی طرف سے سندھی میڈیا کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کسی زمانے میں محکمہ اطلاعات صبح سویرے سندھی میڈیا کی سمری بنا کر اسلام آباد بھیجتا تھا وہ بند کردی گئی۔ اس طرح سے اس گراس روٹ میڈیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ جو کچھ بھی لکھتا ہے حکومت کو اس کی پرواہ نہیں۔ 

یہ درست ہے کہ سندھی میڈیا میں حالات کا کبھی بھی بہتر نہیں رہے ہیں۔ اور نہ ہی کبھی سندھی میڈیا کے کسی ادارے میں ویج بورڈ کا اطلاق ہوا۔ نہ ہی اس پر عمل درآمد کے لئے سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔سوشل سیکیورٹی کی عدم موجودگی میں اخباری کارکنوں کی بقا کو مشکل بنائے ہوئے تھی۔ سوائے روزنامہ ہلال پاکستان کے۔ وہ بھی ایک زمانے میں کسی ادارے میں یونین نہیں رہی۔ سندھ میں موجود صحافیوں کی تنظیمیں سوائے حالات کار کو بہتر بنانے اور ملازمت کے شرائط کو چھوڑ کر باقی  معاملات خاص طور اظہار رائے کی آزادی وغیرہ پر متحرک رہی ہیں۔ 


اٹھارویں ترمیم کے بعد پریس اور میڈیا صوبائی اختیارات بن گئے۔ لیکن مختلف طریقوں سے وفاق نے اس کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ اب عملی طور پر ڈکلیئریشن حاصل کرنے سے لیکر اے بی سی، میڈیا ادارے کی مالکی تبدیل کرنے، میڈیا لسٹ، اشتہارات کو ریٹ مقرر کرنے اور یہاں تک کہ اخبارات کی روز مرہ کی بنیاد پر حاضری لگانے تک سینٹرلائیزڈ ہے۔ یہ تمام کام وفاقی محمکہ اطلاعات پی آئی ڈی کے ماتحت ہوتا ہے، جہاں پر کوئی صوبائی نمائندگی نہیں۔ پریس کونسل، رجسٹرار پریس یا کوئی اور میڈیا کو ریگیولیٹ کرنے والا ادارہ ہو، وہاں پر صوبائی نمائندگی موجود نہیں۔ جبکہ آئین کی رو سے خود مختار اور نیم خود مختار اداروں میں ہر صوبے کی نمائندگی ہونا لازم ہے۔ 

مارکیٹ کے اشتہارات یا نجی بزنیس کے لئے کبھی بھی سندھی میڈیا پسند کی میڈیا نہیں رہی۔ چائے کی پتی ہو یا نہانے کا صان اور شیمپو سندھی میڈیا میں اشتہارات نہیں دیئے جاتے۔اس طرح کی مصنوعات ایک طرح سے سندھ کو اپنی مارکیٹ ہی نہیں سمجھتی۔حالانکہ اعداوشمار بتاتے ہیں کہ مارکیٹ ہے۔اس وجہ سے سندھی اخبارات کا بزنیس ماڈل پرائیویٹ بزنیس کے بجائے سرکاری اشتہارات پر منحصر ہے۔

بحران کے سندھی میڈیا پر بھی براہ راست اثرات پڑے۔ سب سے پہلے روزنامہ سندھ ایکسپریس نے ڈاؤن سائیزنگ کی۔ یہاں تک کہ ایڈیٹر فاروق سومرو، نیوز ایڈیٹر، اور دیگر سنیئر اور پروفیشنل ایڈیٹوریل عملے کی چھٹی کردی گئی۔تقریبا 80 فیصد لوگوں کو فارغ کردیا گیا۔ نتیجے میں سندھی صحافیوں کی ایک کھیپ بیروزگار ہو گئی۔ 

اس بحران کے سندھی کے سب سے بڑے میڈٰیا گروپ کاوش اور کے ٹی این پر بھی اثر پڑا۔ اس کاوش گروپ کے اخباری اور تی وی چینل میں چھانٹی کی گئی۔ جس کے تحت اسلام آباد میں قربان بلوچ، حیدرآباد میں ناز سہتو، منظور میرانی عزیز سولنگی کو فارغ کردیا گیا۔ ان کی جگہ پر نئے اور کم اجرت پر کام کرنے والوں کو رکھا گیا۔ جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر میڈیا کا معیار متاثر ہوا۔ 

روزنامہ جیجل سے بھی صحافیوں کی ایک کھیپ کو فارغ کردیا گیا۔

سینئر صحافی منظور میرانی کا کہنا ہے کہ کسی سندھی ادارے میں ہیومن ریسورسز کا شعبہ سرے سے وجود ی نہیں رکھتا۔لہٰذا جب بحران آیا تو اس کو کس طرح منیج کیا جائے کوئی ادارہ س پوزیشن میں نہیں تھا۔ اشتہارات وغیرہ  کے پیسے روکے تو میڈیا مالکان کو نقصان نہیں ہوا۔ یہ دراصل نفعے میں نقصان تھا۔  لہٰذا پرانا منافعہ برابر کرنے کے لئے ڈاؤن سائیزنگ  اور دیگر پیسے کماے کے فارمولے اختیار کئے گئے۔ 

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سالہا سال تک کام کرنے والے صحافی ناز سہتو بتاتے ہیں کہ عام زبان میں اس صورتحال کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ سندھی میڈیا کا کام تمام ہوگیا۔ جس طرح کا بڑا بحران تھا، اس کو ہینڈل کرنے کا سرمایہ کاروں کو نہ تجربہ نہیں ہی مہارت تھا۔ نتیجے میں ایڈٰٹوریل پالیسی شعبہ اشتہارات کے ماتحت ہوگئی۔ 

ناز سہتو اس بحران کا ایک چھوٹا عنصر اس چیز کو بھی بتاتے ہیں کہ مختلف یونیورسٹیوں سے ماس کمیونیکیشن پڑھ کر نکلنے والے نوجوان میڈیا مارکیٹ میں اترے۔ جو ٹرینی اور انٹرنی کے طور پر انتہائی کم معاوضہ بعض صورت مین بغیر معاوضے کے کام کرنے لگے۔ ایسے میں میڈیا مالکان کو سینئر اور پروفیشنل اخباری کارکنوں / صحافیوں کی تنخواہیں بھاری محسوس ہونے لگی۔ بعض صورتوں میں ان کی طرف سے تنخواہوں میں اضافہ بھاری محسوس ہونے لگا۔ نتیجے میں تنخواہوں کے معاملے میں رائیٹ سائیزنگ اور ملازمین تعداد کے حوالیسے ڈاؤن سائیزنگ کی گئی۔ 

کرونا نے پرنٹ میڈیا کو اس طرح دھچکا دیا کہ اس کی سرکیولیشن کم ہوئی۔ کارخانے اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے اشتہارات پر اثر پڑا۔ اس کو سنبھالنے کے لئے جس ویزن، مہارت اور تجربے کی ضرورت تھی اس کا فقدان تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ادارتی یعنی ایڈیٹوریل کے فیصلے شعبہ اشتہارات کے ماتحت ہوگئے۔ یوں اظہار کی آزادی جو ایک طویل اور کٹھن جنگ اور جدوجہد کے ذریعے حاصل کی گئی تھی وہ کوڑیوں میں بکنے لگی۔  کسی تھانیدار کا مبارکباد کا اشتہار بھی شایع ہورہا ہے۔

ناز سہتو کا کہنا ہے کہ میڈیا یا اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے ہم ایک بار پھر ایوب دور یا اس کی بدترین شکل کے دور میں چلے گئے ہیں۔

منظور میرانی بتاتے ہیں کہ اس بحران کے بعد سندھی میڈیا دو قدم پیچھے چلی گئی۔ نئے ٹرینڈ والی میڈیا تھانیداروں اور تحصیلداروں کے مبارکباد کے اشتہارات شایع کرنے لگی۔ پالیسی سازی مکمل طور پر صحافیوں کے ہاتوح سے نکل کر مالکان کے ہاتھ میں چلی گئی۔ 

جولائی اور اگست 2021 میں محکمہ اطلاعات سندھ نے دو بڑے اخبارات ''روزنامہ عبرت''  اور ''روزنامہ پنہنجی اخبار'' سمیت درجنوں اخبارات کو اریگیولر قرار دے کر ایک ایک ماہ تک اشتہارات بند کر دیئے۔ اے پی این ایس نے معاملہ اٹھایا، تومعاملے کی تحقیقات کے بجائے زبانی معافی تلافی کرکے ختم کردیا گیا 

انفرمیشن کمیشن سندھ اور بلوچستان میں کام نہیں کر رہا۔ سندھ حکومت نے چار سال کے بعد ابھی اس کے بائی لاز بنائے ہیں۔  

چھوٹے اداروں میں تنخواہین کئی کئی ماہ دیر سے ملنے لگیں۔ اور ملازمت کی صورتحال غیر یقینی ہونے لگے تو ایسے اخبارات کے کارکنان دوسرے کام کرنے

 لگے۔ اس طرح صحافت پرکشش پروفیشن نہیں رہا، تو لوگ اس سے نکلنے لگے۔  ایک نیا سرمایہ کار میڈیا میں آیا۔ جس نے بزنیس کا نیا ماڈل متعارف کرایا۔ نیوز نیٹ ورک میں بطور رپورٹر کام کرنے والوں سے سال میں کم از کم دو مرتبہ یوم آزادی اور بنظیر بھٹو کی شہادت کے دن پر اشتہارات کے نام پر پیسے مقرر کئے گئے۔ بعض اخبارات میں یہ رقم ایک ضلعی رپورٹر پر دو سے پانچ لاکھ روپے تک بھی بتائی جاتی ہے۔

سندھی اخبارات میں چند ہی کالم نویسوں کو اعزازیہ دیا جاتا تھا۔ اس بحران کے نتیجے میں ان کا معاوضہ بھی بند کردیا گیا۔ بعض کالموں کوسخت گیرکہہ کر ان کی شاعت روک دی گئی۔ اور نصف درجن سے زائد کالم نویس کی تحریریں شایع کرنے سے منع کردیا گیا۔ 

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافی اشفاق آزر کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں حکومت کی جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ اپنی جگہ پر لیکن سیاسی جماعتوں کو میڈیا کے اس مورچے کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر میڈیا ہاؤسز نے دانشمندی اور ویزن سے کام نہیں کیا تو اور صورتحال خراب ہو جائے گی۔ اظہار  رائے کی ٓزادی  سندھی میڈیا میں اس وجہ سے بھی زیادہ خطرے میں ہے کیونکہ اس کا  بزنیس ماڈل سرکاری اشتہارات ہیں۔

سندھی پریس کبھی ”ہاری  پریس“ تو کبھی  ”پاور ٓف پاورلیس پیپل‘ کہلائی۔ حالیہ بحران کی وجہ سے سندھی میڈیا میں نچلے درجے کی سوچ کے بزنیس ماڈل سامنے آرہے ہیں۔ جس میں پروفیشنلزم اور عوام دوست دور ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں وہ حکومت کی پالیسیوں کی بھی اس روایتیانداز سے نہین کر پائے گا۔ نتیجۃ سندھی میں اظہار رائے کی آزادی اور پروفیشنلزم مزید کم ہو جائے گی۔ سندھی میڈیا جو مزاحمت، انسانی حقوق، سندھ کے حقوق، روشن خیالی کی علامت تھا اب مفاہمت اور نچلے درجے کی کمرشلائیزیشن کی طرف برھ رہا ہے۔